اپنے گھر میں وہ رات موتیا نے مصلّے پر گزاری تھی وہ اُسے تکلیف میں دیکھ تو آئی تھی مگر وہ تکلیف اب اُس پر بہت بھاری پڑ رہی تھی۔ پتہ نہیں وہ اُس کے دل میں کہاں جا بیٹھا تھا کہ دل اُس کے خیال کے بنا دھڑکنا ہی بھول گیا تھا۔ حاصل اور حصول تک کا تو تب تک موتیا نے سوچا ہی نہیں تھا ۔ نہ دیواروں کا سوچا تھا نہ اپنی اوقات کا۔ اُس کو تو بس پیار ہوا تھا اور پیار بھی فی سبیل اللہ جس میں پڑ کے محبوب سے زیادہ رب یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔
اللہ وسائی نے صبح سویرے موتیا کو جائے نماز پر ہی سویا پایا۔ اُس نے موتیا کو جگانے کے لئے اُس کا ماتھا چھوا تھا اور اُس کا ماتھا بُری طرح جھلس رہا تھا۔ وہ مراد کی بیماری اپنے سر اور گھرلے آئی تھی۔ سُرخ چہرے کے ساتھ بخار میں سُدھ بدھ کھوئے وہ جائے نماز پرپڑی تھی اور اللہ وسائی اُ س کا چہرہ بس دیکھتی جارہی تھی۔ اُس نے عشق کا چہرہ پہلی بار دیکھا تھا اور ایسا طوفانی عشق جو ایک دن ایک رات میں ہوا تھا وہ اُس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رکھ کر روتے ہوئے موتیا کے لئے دُعا کر رہی تھی۔ وہ مرادیں پوری کرنے والا رب اُس کی بیٹی کی مراد پوری کردے۔ موتیا جو دل سے مانگ رہی تھی ۔ اُس کی ماں اپنی توتلی زبان میں مانگ رہی تھی روتے اور گڑگڑاتے ہوئے اُس کے بس میں بس یہی تھا۔
٭…٭…٭