بتول موتیا کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی ۔
”مجھے ایسے مت دیکھ بتول جھوٹ نہیں بول رہی میں جو دیکھا ہے وہی بتا رہی ہوں تجھے پہلے بھی سانپ دیکھا تھا اب پھر دیکھا ہے۔” موتیا کو اُس کے چہرے سے پتہ چل گیا تھا کہ وہ اُس کی بات پر اُلجھ رہی تھی۔ مراد کو آئے تیسرا دن تھا جب وہ دونوں ملی تھیں کیونکہ بتول کو اُس کی طبیعت خراب ہونے کا پتہ چلا تھا اور وہ عیادت کے لئے آئی تھی۔
”تونے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ تیرے علاج سے بخار اُترا ہے مراد کا۔” بتول نے جواباً جیسے لڑتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔
”تجھ سے ملاقات ہوتی تو بتاتی نا۔ اب آگئی ہے تو بتادیا۔”موتیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تم نے بتایا ہے؟ مجھے اماں نے بتایا ہے۔” بتول نے کٹکھنے انداز میں کہا۔
”اچھا چل جس نے بھی بتایا ہو۔ مراد ٹھیک ہوگیا یہ ضروری تھا کون ٹھیک کرتا یہ تھوڑی ضروری تھا۔”موتیا نے صلح جو انداز میں کیا اور وہ ہمیشہ یہی کرتی تھی۔ بتول کے سامنے۔ بتول کو غصہ آتا موتیا پانی ڈال کر ٹھنڈا کردیتی۔
”مراد پوچھ رہا تھا گامو چاچا سے کہ تانگے پر اُس دن کون سی لڑکیاں تھیں۔” بتول نے یک دم اُس سے کہا۔ موتیا نے حیران ہوکر اُس کی شکل دیکھی۔
”اچھا… ابا نے بتادیا اُسے؟”
”نہیں چاچا نے کہا کہ انہوں نے دھیان ہی نہیں دیا۔ ایک تو گامو چاچا بھی بڑا ہی بھولا ہے۔ یہ تو چوہدرائن نے میری اماں سے پوچھا تو اُسے پتہ چلا کہ تو اور میں تھے تانگے میں۔” بتول بتاتی جارہی تھی۔
”مجال ہے تم بات کرتے ہوئے ذرا سانس لے لو۔”موتیا کو اُس کے مشین کی طرح بولنے پر ہنسی آئی تھی۔
”میں تمہیں کیا بتارہی ہوں اور تم مجھے کیا بتانا شروع ہوگئی ہو۔” بتول ناراض ہوئی تھی اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”اور دیکھو اب یہ خواب وغیرہ دیکھنا چھوڑودو اتنا اچھا لگتا ہے تو جاکر سیدھا سیدھا ملو چوہدری مراد سے اور کہو رشتہ بھیجیں۔”موتیا بتول کی باتوں پر ہنسنا شروع ہوئی اور ہنستے ہنستے اُس کی آنکھوں میں پانی آنا شروع ہوگیا۔
”پیار ایسے نہیں ہوتا بتول یہ تو پیار نہیں ضرورت ہوگئی ۔” بتول کو اُس کی بات نے لاجواب کیا تھا۔
”تجھے کبھی ضرورت نہیں پڑتی اُس کی بس صرف پیار سے ہی کام چل جائے گاتیرا؟”اُس نے کچھ طنزیہ انداز میں جواباً موتیا سے کہا تھا۔
”میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ہوا تو میرا ہے نہ ہوا تو بھی موتیا کا ہی مراد رہے گا وہ۔” اُس نے عجیب سے انداز میں بتول کو ہاتھ کی ہتھیلیاں دکھاتے ہوئے کہا تھا اور بتول خاموش رہ گئی تھی۔
٭…٭…٭