”مٹی کا ایک ذرہ تک نظر نہیں آنا چاہیے میرے مراد کے کمرے میں۔ ”تاجور مراد کے کمرے میں کھڑی شکوراں اور ایک دوسری ملازمہ سے کمرے میں جھاڑ پونچھ کرواتے ہوئے ہدایات دے رہی تھی۔
”یہ سفید چادر کیوں ڈال دی ہے تو نے میرے بیٹے کے بستر پر وہ رنگلا کھیس نکال کڑھائی والا۔” اُس نے دوسری نوکرانی کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا جس نے مراد کے بستر پر ایک سفید چادر ڈال دی تھی۔
”بس عقل ہی نہیں دی اسے رب نے… لکھ بار سمجھا کے بھی کرنی اپنی مرضی ہی ہونی ہے اس نے۔” شکوراں نے بھی اُس نوکرانی کو تاجور کی دیکھا دیکھی ڈانٹا تھا۔
تاجور کمرے پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے اُن دونوں سے مزید کچھ کہے بغیر باہر نکل گئی تھی۔
”چوہدری مراد کب آرہا ہے؟” تاجور کے جاتے ہی اُس نوجوان ملازمہ نے بڑی بے قراری سے شکوراں سے پوچھاتھا۔
”دو دن بعد آرہا ہے اور دیکھ یہ سرخی پاؤڈر کم کرکے آنا اب سے حویلی میں سنا تو نے۔” شکوراں نے اُسے بتاتے ہوئے ساتھ ہی ڈانٹنا ضروری سمجھا۔
”لے خالہ! بتول کو تو کبھی نہیں سمجھاتی میری سرخی پاؤڈر کے پیچھے پڑ گئی ہے تو۔” اُس نوکرانی نے جیسے ناراض ہوکر اُسے ترکی بہ ترکی کہا تھا۔ شکوراں اُسے گھور کر رہ گئی تھی اور پھر اُس سے مزید بحث کئے بغیر وہ لپک کر کمرے سے یہ کہتے ہوئے نکل گئی۔
”چوہدرائن کو دیکھوں کوئی کام نہ ہو اُنہیں۔”
باہرصحن میں تاجور صحن میں کھلی گندم کی بوریوں کو دیکھنے لگی تھی۔ جنہیں کھولے گاؤں کی عورتیں دانوں میں ہاتھ پھیر پھیر کر اُنہیںصاف کررہی تھی۔ وہ دانے صاف کرنے کے بعد اُنہیں بان کی چارپائیوں پر ڈال کر دھوتیں اور پھر دھوپ میں سوکھنے کے لئے چھوڑ دیتیں اور جب گندم سوکھ جاتی تو تاجور کی حویلی کے بڑولے اُس سے دوبارہ بھر کے قطار در قطار رکھ دیئے جاتے ۔ وہاں موجود دانے پورا سال اگلی فصل آنے تک صرف حویلی کی مہمان داری کے کام نہیں آتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً پورے گاؤں میں بانٹے جاتے تھے۔ گاؤں کی عورتیں گندم صاف کرکے دھونے پر بھی معاوضے کے طور پر دانے لیتی تھیں۔ تو اُس گندم کو صاف کرتے ہوئے وہ اسی محبت سے صاف کرتی تھیں جیسے اپنے گھر کے دانے۔
”تھتھی نہیں آئی؟” تاجور نے ایک نظر اُن عورتوں پر ڈالتے ہی اللہ وسائی کو غائب دیکھا تھا۔
”آنا تو تھا اُس نے چوہدرائن جی پر وہ جب سے موتیا آئی ہے نا چھٹیاں گزارنے اللہ وسائی کا دھیان کسی اور کام میں نہیں لگتا۔” شکوراں نے اُسے بتایا تھا اور تاجور چونکی تھی۔
”موتیا آئی ہوئی ہے؟”
”ہاں جی چوہدرائن جی… آپ کو سلام کرنے نہیں آئی؟… اُسے تو دو تین دن ہوگئے ہیں۔” شکوراں نے تاجور کو جیسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”پہلے کبھی لائی ہے اُسے سلام کرانے جواب لائے گی۔” تاجور کے انداز میں عجیب کاٹ تھی۔
”بیٹی ڈاکٹر بنارہی ہے تو دماغ ان دونوں کا خراب ہونے لگ گیا ہے۔”
”ٹھیک کہہ رہی ہیں چوہدرائن جی۔ پر میں سمجھاؤں گی اُسے کہ موتیا کو بھیجے آپ کے پاس۔” شکوراں نے لقمہ دیا۔
”ہاں اُسے کہنا دانہ چننے بھیجے بیٹی کو صرف ڈاکٹری سکھانی ہے اُس نے…؟ عورتوں والا کوئی کام نہیں سکھانا؟” تاجور نے جیسے سُلگ کر کہا تھا۔
”تو اور کیا… ڈاکٹری بھی چوہدریوں کی مہربانی سے ہوئی ہے اس کی… ورنہ کہاں خرچے پورے ہونے تھے گامو سے اُس کی پڑھائیوں کے یہ تو چوہدرائن جی آپ اور چوہدری صاحب کے بڑے دل کی نشانیاں ہیں۔” شکوراں کو ایک بار پھر موقع ملا تھا تاجور کو مکھن لگانے کا اور اُس نے ہمیشہ کی طرح موقع ضائع نہیں کیاتھا۔
تاجور جیسے جھاگ کی طرح ٹھنڈی پڑی تھی ۔ ہاں یہ وہی تو تھے جنہوں نے موتیا کو پڑھایا تھا ورنہ اُن کے پلے کیا تھااور اسی احسان کی وجہ سے اللہ وسائی اُس کے پیر پکڑتی نہ تھکتی تھی اور گامو پانی سے مٹی ہوگیا تھا۔ اُن کی چوکھٹ کی ۔اور بالکل اُسی وقت باہر مردان خانے سے گامو کی ہوک بھری آواز گونجنے لگی تھی۔
دل دریاں سمندروں ڈھونگے
کون دلاں دیاں جانے ہُو
(دل دریاؤں اور سمندروں سے گہرے ہوتے ہیں
دلوں کے راز کون جان سکتا ہے)
تاجور ٹھٹکی تھی وہ گامو کی آواز پر اسی طرح ہمیشہ ٹھٹکی تھی۔ ایک لمبا عرصہ اُس نے حویلی کے مردان خانے میں اُس کی آواز گونجنے نہیں دی تھی۔ پر پھر چوہدری کرامت کی موت پر گامو ایک بار پھر مردان خانے آکر یہ کلام پڑھنے لگا تھا اور چوہدری شجاع کو اُس کی آواز کسی ٹھنڈے پھاہے کی طرح لگنے لگی تھی ۔ چوہدری کرامت کے چہلم تک گامو روز بلاناغہ آکر مردان خانے میں سارا سار ا دن بیٹھا چوہدری کرامت کے احسان اور نیکیاں گنتا روتا حق باہو کا کلام پڑھتا رہا اور وہ چالیس دن تاجو رکے اندر جو بھی آگ تھی وہ بھی ٹھنڈی ہی رہی۔ گامو بے ضرر تھا اُس نے کیا لے جانا تھا اُس حویلی سے اُکھاڑ کے۔ تاجورنے جیسے خود کو سمجھا لیا تھا۔ گاؤں میں اب بھی موتیا کے نام کی باز گشت اڑتے اڑتے تاجور کے کانوں تک پہنچتی رہی پر وہ تکبر سے اُسے جھٹکتی رہتی۔
”گامو کو بھی رب سوہنے نے کیا ہی آواز دے کے بھیجا ہے۔” شکوراں نے بھی وہاں دانہ چنتی دوسری عورتوں کے ساتھ بیٹھے گامو کو سراہا تھا۔
تاجور آج کل ایسی سرشار پھر رہی تھی کہ شکوراں گاموں کے قصیدے بھی پڑھتی تو تاجور کو سنائی نہ دیتے۔ اُس کے کان صرف مراد کی آہٹ پر لگے تھے۔ وہ لندن سے آنے والا تھا۔ ہر سال ایک بار آتا اس بار سردیوں کی بجائے گرمیوں میں آرہا تھا۔ اور تاجور کا بس نہیں چل رہا تھا ۔ وہ پوری حویلی بیٹے کے لئے سجا کر اُس کا استقبال کرتی۔
”چوہدرائن جی اس بار تو چھوٹے چوہدری کی شادی کر ہی دیں یہ نہ ہو کہ گوروں کے ملک سے گوری لے آئے۔” گندم صاف کرتی ایک عورت نے تاجو رسے کہا تھا اور تاجور نخوت سے مسکرائی تھی۔
”میری اولاد ہے مراد وہاں شادی کرے گا جہاں ماں کہے گی۔ گوروں کے ملک میں بیرسٹر بننے گیا ہے گوری ڈھونڈنے نہیں۔”
”تجھ کو بھی نذیراں کبھی عقل نہیں آنی دیکھ کر تو بولا کر کس سے کیا کہہ رہی ہے؟’ ‘شکوراں نے اُس عورت کو جھڑکا تھا اور وہ عورت کچھ خفیف سی ہوکر چپ ہوگئی تھی۔
”میں نے تو اللہ وسائی کو بھی کہا ہے موتیا کا رشتہ ڈھونڈے یہ نہ ہو وہ شہر سے واپس نہ آئے ۔”ایک دوسری عورت نے لقمہ دیا تھا اور موتیا کے نام پر لاشعوری طور پر تاجور کے کان کھڑے ہوئے تھے۔
”پر موتیا سے تو نظر نہیں ہٹتی دیکھے میلی ہوتی ہے۔ رنگ روپ قد کاٹھ تو رانیوں جیسا لے کر پیدا ہوئی ہے اوپر سے ڈاکٹرنی بھی بن رہی ہے۔ اللہ وسائی کہتی ہے کسی اونچی جگہ رشتہ کرنا ہے اُس نے موتیا کا۔”
وہاں بیٹھی عورتوں کو اب جیسے اپنا من پسند موضوع مل گیا تھا بات کرنے کے لئے اور وہ ایک کے بعد ایک لقمے دے رہی تھیں اور اپنے آپ کو پنکھا جھلتی تاجور نہ سننے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی سب سن رہی تھی۔ اُس نے موتیا کو بس بچپن میں ایک بار دیکھا تھا پھر اُس کے بعد کبھی نہیں۔ نہ اللہ وسائی اُسے لائی تھی نہ تاجور نے موتیا کو کوبھی بلایا تھا۔ پراب وہ گاہے گاہے اللہ وسائی کو یاد دلانے لگی تھی کہ گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی طرح اُسے بھی موتیا کو کام کاج کے لئے حویلی لاناچاہیے اور اللہ وسائی ہر بار اُس کے سامنے ہاں کہہ کر وعدہ کرلیتی کہ اگلی بار موتیا آئے گی تو وہ اُسے لے آئے ی۔ گندم صاف کرنے اوروہ اگلی بار کبھی نہیں آئی تھی۔
”اللہ وسائی نے دماغ خراب کردیا ہوگا اسی طرح بیٹی کا بھی۔ ماشکی کی بیٹی اور اونچا گھر۔ ڈاکٹر بن رہی ہے تو بھی کیا ہے تو کمی کمین ہی ۔” تاجور نے عجیب نفرت اور حقارت سے سوچا تھا۔
”اور حسن ایسا بھی کیا حسن ہے کہ پورا گاؤں باتیں کرتا ہے۔ کسی دن بلاکے دیکھتی ہوں… یہ ہے کیا موتیا؟” وہاں بیٹھے تاجور نے دل ہی دل میں طے کیا تھا۔
٭…٭…٭