ربا ربا مینہ برسا
سب دی جھولی دانے پا
سب کجھ کریں کراویں آپ
تو رب ساری دُنیا دا
”موتیا پاگل ہوگئی ہے؟ بارش میں کھڑی ہے! سارے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ شادی پر پہننے والا جوڑا ہے۔”
اللہ وسائی کمرے سے کچھ لے کر نکلی تھی،جب اُس نے صحن کے بیچوں بیچ برستی بارش میں کھڑی موتیا کو دیکھا تھا۔ وہ کب آکر وہاں کھڑی ہوئی تھی اللہ وسائی کو پتہ نہیں چلا تھا۔ پر وہ اب ننگے پاؤں صحن کے بیچوں بیچ کھڑی برستی بارش میں سر اُٹھا کر جیسے آسمان کو دیکھ رہی تھی اُسے نہ دوپٹے کا ہوش تھا نہ چپل کا نہ اُس گوٹے والے جوڑے کا جو اب بھیگ کر اُس کے جسم سے چپکا ہوا تھا۔ اُس نے اللہ وسائی کی آواز پر سرنیچے کرکے ماں کو دیکھا تھا جو برآمدے میں کھڑی تھی۔ موتیا کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ آئی پھر وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ماں کی طرف آئی۔
”اماں خواب میں کسی کو دیکھیں اور وہ سامنے آجائے تو کیا ہوتا ہے؟” اللہ وسائی اُس کے سوال پر حیران ہوئی تھی۔
”کیا ہوتا ہے؟” اُس نے الجھتے ہوئے موتیا سے جواباً پوچھا تھا۔
”یہ تو آپ سے پوچھ رہی ہوں۔” اللہ وسائی اُلجھی۔
”تو نے کس کو دیکھ لیا موتیا؟”
”مراد کو۔”
اُس نے عجیب مسکراہٹ کے ساتھ ماں کو بتایا جیسے بچپن میں گھر کے موتیے کے پودوں میں جگنو ڈھونڈھ لینے پر ماں کو بتاتی تھی۔ اُس کی آنکھیں بارش کے پانی سے بھری ہوئی ہیرے کی کنیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
اللہ وسائی کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ بیٹی کو کہاں کہاں کالا ٹیکہ لگاتی پھرے۔ اُس نے موتیا سے نظریں ہٹا کر منہ ہی منہ میں ماشاء اللہ کہا تھا۔ پر اُسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کس مراد کی بات کررہی تھی اور پھر جیسے بجلی کے جھماکے کے ساتھ اللہ وسائی کو یاد آیا تھا۔
”تو چوہدریوں کے بیٹے کی بات کررہی ہے؟”
اُس نے بے یقینی سے بیٹی سے پوچھا۔موتیا نے کھڑے کھڑے سرہلایا۔
”وہ وہی ہے اماں جسے میں خوابوں میں دیکھتی تھی آج اسٹیشن پر بھی دیکھ لیا۔ ”
اللہ وسائی گنگ ہوگئی تھی۔ موتیا کے چہرے اور آنکھوں میں اُس نے مراد کے نام پر جو دیکھا تھا اُس نے اُسے بُت بنادیا تھا۔
”بس دوبارہ نام مت لینا اُس کا… پی جا اُس کا نام!”
اُس نے زندگی میں پہلی بار موتیا کو ڈانٹنے والے انداز میں کہا تھا۔
موتیا نے سراُٹھا کر آسمان کو دیکھا اور اپنا منہ کھول دیا۔ برستی بارش کے قطرے اب سیدھا اُس کے منہ میں اُتر رہے تھے اور وہ کسی بچے کی طرح اُن قطروں کو ہونٹوں سے ہوا میں پکڑتے ہوئے حلق سے اُتار رہی تھی۔ پھر اُس نے ماں کو دیکھا مسکرائی۔
”پی گئی اُس کا نام۔”
اللہ وسائی ہل ہی نہیں پائی۔وہ شرارت نہیں کررہی تھی فرمائش کررہی تھی اور جو طلب کررہی تھی وہ اُس کی اوقات سے کہیں بڑھ کر تھا۔
ربّا ربّا مینہ برسا
سب دی جھولی دانے پا
سب کچھ کریں کرادیں آپ
توں رب ساری دنیا دا
باہر گلی میں بچے نمانے ننگے پاؤں پانی میں بھاگتے ہوئے بلند آواز میں باجماعت گارہے تھے۔ اندر صحن میں بارش میں بھیگتی موتیا اُن کے پیچھے وہی گاتے اور دہراتے ہوئے صحن میں بازو پھیلائے گول چکّر کاٹ رہی تھی۔ یوں جیسے وہ بارش برسانے والے بادل پر پاؤں رکھے ہوا میں تیر رہی تھی۔
بس اِک لمحہ ہوتا ہے میں سے تُو ہونے میں اور تُو سے کل کائنات ہوجانے میں وہ لمحہ نہ دستک دے کے آتا ہے نہ چٹھی بھیج کر… وہ ہوا کی طرح آتا ہے آندھی بن جاتا ہے، بارش کی طرح آتا ہے پاؤں میں بھنور باندھ جاتا ہے۔
٭…٭…٭