بتول نے اپنی بندھی ہوئی گیلی چٹیا کھولنا شروع کردی تھی بس اُس کا ذہن موتیا کے اُس ایک جملے میں ہی اُلجھا ہوا تھا۔
”یہ وہی لڑکا ہے جسے میں خوابوں میں دیکھتی ہوں۔”
بتول حیران تھی اُس نے درجنوں بار موتیا سے اُس کے خواب سنے تھے اور اُن خوابوں میں نظر آنے والے لڑکے کا حلیہ بھی کُرید کُرید کر پوچھا تھا لیکن ایسا کیوں ہوا تھا کہ اُس کا دھیان بھی چوہدری مراد کی طرف نہیں گیا تھا۔ چوہدری مراد سے بتول کا بہت کم آمنا سامنا ہوا تھا۔ وہ جب بھی پاکستان آتا حویلی میں بہت کم ہی ٹھہرتا وہ اور تاجور اور چوہدری شجاع سیرو تفریح کے لئے نکل جاتے تھے پر پھر بھی حویلی میں جگہ جگہ مراد کی تصویریں تھیں۔ بتول کو کبھی چوہدری مراد کا خیال کیوں نہیں آیا تھا۔ یہ سوال بتول اب اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی اور جواب اُس کے پاس تھا۔ وہ گامو ماشکی کی دھی موتیا تھی خوابوں میں بھی چوہدریوں کا بیٹا کیسے آسکتا تھا اور پھر موتیا تو کبھی حویلی بھی نہیں گئی تھی۔ بچپن کے علاوہ مراد اورا ُس کا کبھی آمنا سامنا بھی نہیں ہوا تھا پھر بتول کیسے یہ سوچتی کہ وہ مراد بھی تو ہوسکتا تھا۔ اُس نے گاؤں کے ہر لڑکے کے چہرے پر موتیا کے خوابوں والے لڑکے کا چہرہ رکھ کر ناپا تھا اور ہر بار اُسے مایوسی ہی ہوئی تھی۔
سوال یہ نہیں تھا کہ آخر موتیا نے مراد کو بغیر دیکھنے خوابوں میں کیسے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ مراد اُسے اس طرح کیوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اُس برستی بارش میں کھڑا دیکھتا رہا تھا۔ وہ مرد کی نظر پہچانتی تھی کیونکہ جس نظر سے مراد نے موتیا کو دیکھا تھا اُس نظر کے لئے بتول ساری عمر ترسی تھی۔ وہ جس سے پیار کرتی تھی اُس کے پاس محبوب کی نظر ہی نہیں تھی اور آج بتول نے دیکھی تھی تو وہ تھا ہ ہی مرگئی ۔
”تو موتیا تو کتنی خوش نصیب ہے کہ جو بھی تجھے دیکھتا ہے تجھ پر مر ہی جاتا ہے۔” بتول نے عجیب حسرت سے چٹیا کا آخری بل کھولتے ہوئے سوچا تھا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری تھی۔ موتیا روپ والی تھی اور وہ بس روپ والی کی سہیلی تھی۔ موتیا نصیب والی تھی اور وہ بس اُس کی سکھی۔ موتیا کے چرچے ہوتے تھے اور وہ بس سننے والوں میں سے ایک تھی۔ وہ موتیا سے حسد کرنا چاہتی تھی… رج کے حسد… وہ بھی نہیں ہوپاتاتھا کیونکہ وہ نیک تھی اُس کی نیکیاں بتول کا زہر پی جاتی تھیں جیسے منکازہر پیتا ہے اور پھولتا جاتا ہے پر خود زہریلا نہیں ہوتا۔
اُسے اُس دن وہاں کھڑے کھڑے سعید پر طیش آیا تھا۔ وہ سامنے ہوتا تو وہ اُس کی مونچھیں کھینچ کر اُتار دیتی ۔ اُس کی داڑھی نوچ ڈالتی اُس کے بال اُتار دیتی ۔ اُس کے ٹوٹے ٹوٹے کردیتی۔ اُسے پیار کی ایک نگاہ تک نہیں آتی تھی اور وہ کس پر مرمٹی تھی۔ اُس کے دل نے سوتاویلیں سو بہانے ڈالے تھے پر بتول کے دل سے مراد نہیں نکل رہا تھا۔ موتیا والا مراد۔
٭…٭…٭