دانہ پانی
قسط نمبر ۴
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وہ رات مراد پر بڑی بھاری گزری تھی۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی آنکھ بند نہیں کرسکا تھا۔ اس نے ماں کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا کہ مراد کسی شے کی تمنا کرے اور تاجور وہ لانے کے لئے دوڑ نہ پڑے۔ تو پھر موتیا کی دفعہ کیا ہو گیا ماں کو؟ اس کے کمرے میں قانون کے کتابوں کے ڈھیر میں موجودکسی کتاب میں اس کا جواب نہیں تھا۔ وہ ماں پر جان قربان کرنے والا فرمانبردار بیٹا تھا اور موتیا پر آکر وہ نافرمان کیوں ہوا تھا؟ قانون کی کسی کتاب میں اس کا جواب بھی نہیں تھا۔ کوئی مراد سے پوچھتا تو وہ اسے محبت کہتا تاجور سے پوچھتا تو وہ اُسے آزمائش کہتی۔
وہ ساری رات کمرے میں پڑی میز پر ماچس کی تیلیوں سے تاج محل بناتا رہا تھا۔ وہ تاج محل جس میں اُس نے موتیا کو بسانا تھا۔ پر اس تاج محل کا دروازہ وہ نہیں بنا سکا تھا۔
فجر کے وقت چوہدری شجاع نماز کے لئے اُٹھا تھا اور اُس نے مراد کے کمرے کی روشنی دیکھی تھی پھر کھڑکی سے بیٹے کو سر پکڑے دیکھا تھا اور اس کے جیسے کلیجے پر ہاتھ پڑا تھا۔ عشق معشوقی اس نے خود کبھی نہیں کی تھی پر پیر وارث شاہ بڑی سنی تھی۔ رانجھے کی فریاد بھی، مرزا کو لگنے والے تیروں کے نوحے بھی اور مبینوال کے اپنی ران کے گوشت کو کاٹ کر سوہنی کو کھلانے کی داستانیں بھی… پر جو حال اس نے اس وقت بیٹے کا دیکھا تھا اسے سب کچھ بھول گیا تھا۔
”تاجور یہ نہ کر… جوان اولاد ہے وہ بھی اکلوتی… نہ کر اتنی ضد اس کے ساتھ۔” چوہدری شجاع نماز کے لئے نیت باندھتی ہوئی تاجور کو ٹوک بیٹھا تھا۔ تاجور کو اس کی یہ مداخلت بے حد بُری لگی تھی۔
”صبح سویرے اللہ کا نام لیتے ہوئے آپ کو ن سے قصے لے کر بیٹھ گئے ہیں۔” اس نے بے حد ناخوش انداز میں مصلّے پر کھڑے ہوئے میاں سے کہا تھا۔
”مراد ساری رات نہیں سویا۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا ہے۔ وہ پریشان بیٹھا ہوا ہے۔” چوہدری شجاع نے اُسے بتایا۔
تاجور نے جواب دینے کی بجائے ہاتھ اُٹھا کر نیت باندھ لی۔ مگر چوہدری شجاع کے جملے جیسے اُس کے ذہن میں اٹک گئے تھے۔ وہ ہر دوسری آیت بھولی تھی۔ کبھی کچھ آگے کردیتی کچھ پیچھے۔ وہ اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی پریشانی کا سن کر بھی تاجور اپنے حواس میں نہیں رہی تھی۔ پر شوہر کے سامنے وہ اپنے آپ کو کمزور ظاہر نہیں کرسکتی تھی۔ چوہدری شجاع نماز پڑھنے چلا گیا تھا اور جب وہ نماز پڑھ کر آیا تو تاجور تسبیح لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔
”تم نے کچھ سوچا تاجور؟” چوہدری شجاع نے آتے ہی اس سے کہا تھا اور وہ جیسے آگ بگولہ ہوگئی تھی۔
”آپ چاہتے ہیں میں ایک کمی کی بیٹی بیاہ کر گھر لے آؤں۔”
”میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اس سارے معاملے کو حکمت سے سنبھالو۔ وہ ایک دو مہینے کے لئے یہاں ہے واپس چلا گیا تو موتیا کی محبت کا بخار بھی اُتر جائے گا ابھی ضد نہ کرو اُس کو ماہ نور کے ساتھ کسی رشتے میں باندھنے کی۔ بس اُسے کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں سوچنے کے لئے کچھ وقت دے وہ اگلے سال آئے گا تو پھر فیصلہ کریں گے۔” شجاع نے جیسے اُسے سمجھا کر کوئی حل دینے کی کوشش کی ۔
”وہ نہیں مانے گا… اس نے ضد لگائی ہے ماں سے اور ضد میں کوئی تاجور کو کیسے ہرا دے۔”
تاجور نے چوہدری شجاع کے سامنے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔ وہ مسلسل تسبیح کے دانے گرا رہی تھی اور چوہدری شجاع اس کا چہرہ دیکھتا جارہا تھا۔ اس نے ضد کرنے والی ماؤں کا سنا تھا پر وہ دیکھ پہلی بار رہا تھا اور وہ بے بس تھا۔ باپ ہوکر بھی وہ ماں کی اس ضد کے سامنے بیٹے کے لئے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
”میں نے نیا وظیفہ شروع کیا ہے اس کے لئے۔ آپ دیکھئے گا چار دن میں سیدھا ہوجائے گا۔ یہ سب جادو ٹونے ہیں جن کے اثر میں ہے وہ۔ جب اثر سے نکلے گا تو موتیا کی تو شکل بھی نہیں دیکھے گا۔”
تاجور نے بے حد اعتماد سے شوہر سے کہا تھا وہ اسی طرح تسبیح کے دانے گراتی ہوئی کمرے سے نکل کر باہر صحن میں چلی گئی تھی جہاں برآمدے میں مراد کے کمرے کی کھڑکی سے اب بھی روشنی آرہی تھی۔ تاجور نے تسبیح پھیرتے ہوئے ڈوبتے دل کو سمجھاتے ہوئے اس کھڑکی سے نظریں چرائیں۔
”دل کو پکّا رکھنا تاجور… ایک دفعہ کمزور پڑی تو بس تیری سلطنت گئی تیرے ہاتھ سے۔” اس کے اندر جیسے کسی نے اس کو پکار کر کہا تھا اور تاجور نے اس پکار کو بار بار سنا تھا۔
٭…٭…٭