Blog

Dana-Pani-Ep-4

کنویں میں مشک گرا کر وہ بڑے انہماک سے چرخی لپیٹ رہی تھی جب کسی نے اُس کے عقب میں یک دم کہا تھا۔
” اتنے نازک ہاتھ اور اتنی بھاری مشک… کلائیوں میں سوج آ گئی تو کیا ہوگا؟” وہ ٹھٹکی تھی مگر پھر پلٹے بغیر ہنس دی۔ وہ مراد تھا۔


”اتنی نازک کلائیاں نہیں ہیں۔ کئی بار بھری ہے یہ مشک۔” موتیا نے بغیر دیکھے کہا تھا۔ پیچھے مُڑے بغیر بھی گھوڑے کی ہنہناہٹ سے اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنے گھوڑے پر تھا مگر کنویں تک آتے ہوئے موتیا نے ہلکی سی چاپ بھی نہیں سنی گھوڑے کے قدموں کی۔
”پلٹ کر نہیں دیکھو گی… اتنا غرور ہے؟” مراد نے اُسے چھیڑا تھا۔
”ہاں ہے! کرلو جو کرنا ہے۔ ” موتیا نے اس بار بھی پلٹے بغیر مشک کا منہ بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
”مراد نے کیا کرنا ہے وہ تو غلام ہے تمہارا۔” موتیا نے اس بار پلٹ کر اُسے دیکھا تھا۔ سورج نکلنے والا تھا اور وہ اس طرح دلیری سے وہاں کھڑا تھا جیسے اُسے پروا ہی نہیں تھی کہ کوئی اُسے وہاں دیکھ لے گا تو کیا کہے گا۔ وہ بس پلکیں جھپکے بغیر دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے کہا۔
”آج سورج نہ بھی نکلانا تو کوئی بات نہیں میری صبح روشن ہوگئی ہے۔ پانی پلا دو مجھے۔”
وہ اب گھوڑے سے اُتر گیا تھا۔ موتیا کا چہرہ لال ہوا، پر اُس نے کچھ کہا نہیں۔ وہ اُس کے سامنے جھکا اور اُس نے ہاتھوں کی اوک بتائی۔ موتیامشک پکڑے اُس کی اوک میں پانی گرانے لگی۔ مراد پانی پیتا رہا اور جب اُس نے پانی پی لیا تو اُس نے موتیا سے سیدھا ہوتے ہوئے کہا۔
”تمہارے ایک کان میں موتیے کا پھول ہے دوسرا گر گیا ہے۔”
موتیا نے بے اختیار اپنے کان کی لو باری باری چھوئی پھر اُس نے کہا۔
”کہیں گر گیا ہوگا۔” وہ اُس کے اتنے قریب کھڑا تھا کہ موتیا نے دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ مت پہنا کرو۔” مراد نے عجیب سے انداز میں کہا اُس نے سوچا تھا موتیا اب اُس سے پوچھے گی کہ کیوں لیکن اُس نے کچھ بھی کہے بغیر اپنے کان کی لو سے موتیے کا وہ پھول نکال کر پھینک دیا تھا۔ مراد گنگ ہوا تھا۔
”تم کو نظر لگ جائے گی اس لیے کہہ رہا تھا۔” اُس نے عجیب مجرمانہ انداز میں موتیا کو وضاحت دی۔ وہ مسکرائی تھی اور مشک اُٹھا کر چلنے لگی اور مراد نے سوچا وہ کس کس چیز سے منع کرے اُسے نظر سے بچنے کے لیے… آنکھیں کھولنے سے منع کرے جن میں ہیرے کی کنّیاں چمکتی تھیں اور دیکھنے والے کا قرار لوٹ لیتی تھی یا پلکیں جھکانے سے منع کرنے جن کی جھالریں اُس کے گالوں پر جیسے سایہ کردیتی تھی مسکرانے سے منع کرے جس سے بہار آتی تھی یا ہنسنے سے جس سے وقت تھمنے لگتا تھا۔
وہ اُس کے پاس سے مشک لے کر چلی گئی تھی اور وہ کھڑا مسحور زدہ سوچتا ہی رہ گیا تھا۔
”سُنو مراد میرے لیے کبھی اپنی جان نہ لینا۔” وہ کرنٹ کھا کر پلٹا تھا۔ وہ اب اُس سے دور گاؤں جانے والی پگڈنڈی پر کھڑی تھی۔
”بتول نے مجھے بتایا ہے کہ ماہ نور سے شادی کرنا چاہتی ہیں تمہاری چوہدرائن جی اور تم نے اُنہیں اپنے آپ کو مار دینے کی دھمکی دی ہے… ایسا مت کرنا۔” مراد کچھ بول ہی نہیں سکا۔ اُسے شرم آئی کہ اُس کے گھر ہونے والی بات موتیا تک پہنچی تھی۔
”خود کو کچھ نہ کروں اور تیرے بغیر زندہ رہ لو… تم رہ لوگی؟” مُراد نے عجیب سے انداز میں اُس سے کہا۔ موتیا بول نہیں سکی۔ وہ اُسے دیکھتی رہی پھر اُس نے کہا۔
” تمہارے بغیر رہ لوں گی تمہیں کچھ ہوگیا تو نہیں رہ سکوں گی۔” مراد مذاق اُڑانے والے انداز میں ہنسا تھا۔


”پھر پیار کھوٹا ہے تمہارا اگر میرے بغیر رہ سکی ہو تو… میں تو نہیں رہ سکتا اور نہ ہی رہوں گا اور یہ نہ سوچنا کہ میری ماں مجھے ماہ نور کا کرنا چاہتی ہے تو میں ہوجاؤں گا۔ میں نے تمہیں زبان دی ہے موتیا میں اس جہاں میں بھی تمہارا ہوں اگلے میں بھی تمہارا ہی رہوں گا۔” اُس نے موتیا سے کہا تھا اور پھر وہاں رُکا نہیںگھوڑے پر چڑھا اور وہاں سے گھوڑا دوڑاتا ہوا چلا گیا۔ موتیا اُس کو تب تک جاتا دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا تھا اور جہاں وہ اوجھل ہوا تھا وہاں موتیا نے اُس دن سورج طلوع ہوتے دیکھا تھا۔
٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!