Blog

Dana-Pani-Ep-4

”سن بتول! ابا کل گامو کے گھر میرا رشتہ مانگنے جارہا ہے۔ تو موتیا سے کہہ وہ انکار کردے۔”
سعید نے اسی شام کو بتول کے گھر جاکر اسے اپنے باپ کے ارادے کے بارے میں بتادیا تھا اور بتول کا دل جیسے چلنا بھول گیا تھا۔


”چاچا میری بجائے تیرا رشتہ موتیا کے لئے لے کر جائے گا اسے شرم نہیں آتی۔” وہ یک دم آگ بگولہ سعید پر جیسے اُلٹ پڑی تھی۔
”وہ مجبور ہے اسے چوہدری شجاع نے بلا کر رشتہ بھیجنے کے لئے کہا ہے۔”سعید نے باپ کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی اور بتول کو اس کی بات پر جیسے یقین ہی نہیں آیا تھا۔
”چوہدری صاحب اور چوہدرائن کیسے یہ کرسکتے ہیں۔ چوہدرائن کو تو پتہ ہے میری ماں تجھ سے میر ا رشتہ کروانے کے لئے کیسے تیرے گھر کے چکر کاٹ رہی ہے اتنے سالوں سے وہ کیسے یہ کرسکتی ہے۔” بتول بڑبڑارہی تھی اور صحن میں چکر کاٹ رہی تھی اس کی ماں ابھی تک حویلی سے نہیں آئی تھی۔ سعید بے حد فکر مند اس کے سامنے صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔
”تو چاچا کو صاف صاف انکار کرتا بتا دیتا اُسے کہ تجھے نہیں کرنی میرے علاوہ کسی سے شادی۔” بتول نے یک دم اُس سے کہا تھا۔
”تجھے پتہ ہے ابا میری نہیں سنتا وہ میری ٹانگیں توڑ دیتا۔” سعید نے سر جھکا کر کہا اور بتول جیسے غصے میں بے قابو ہوگئی ۔
”تو کویت میں کام کرتا ہے۔ ہزاروں کماتا ہے اور تو چاچے کے سامنے میں میں کرکے آگیا، اس ڈر سے کہ وہ تیری ٹانگیں توڑ دے گا اور اُدھر ایک چوہدری مراد ہے جس نے ماں کو خودکشی کی دھمکی دی ہے کہ موتیا کے علاوہ وہ کسی سے شادی نہیں کرے گا۔ اس کو کہتے ہیں پیار سعید… اس کو کہتے ہیں ہمت جرأت… اس کو کہتے ہیں مرد۔” وہ دھاڑ دھاڑ بولتی ہی چلی گئی۔ سعید عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”جب موتیا کو بیاہ کر حویلی لے جائے مراد تو مجھے سنانا اور بتانا کہ اسے کہتے ہیں مرد … ابھی تو اس کا باپ مجھ سے کروانا چاہتا ہے تیرے اس مرد کے بچے کی محبوبہ کی شادی۔ تجھے بتانے آیا ہوں کہ موتیا کو کہہ انکار کردے میں نہیں کرسکوں گا۔” وہ بے حد ناراض رُکے بغیر کہہ کر چلا گیا تھا۔ اُسے بتول کا مراد کے ساتھ اپنا موازنہ اچھا نہیں لگا تھا کیونکہ اُس موازنے میں وہ کہیں ٹھہر ہی نہیں پارہا تھا۔ یہ بتول جانتی تھی پھر بھی آج وہ غصّے میں خود پر قابو نہیں کر پائی تھی۔ پتہ نہیں غصّہ تھا کہ بے بسی۔ وہ بلا جو موتیا اور مراد کی زندگی میں آئی تھی۔ وہ اُن کے ساتھ ساتھ بتول اور سعید کی زندگی اُجاڑنے بھی آگئی تھی اور یہ بتول نے کبھی مر کے بھی نہیں سوچا تھا۔
بتول ماں کے انتظار میں اُس دن بھوکی شیرنی کی طرح پھرتی رہی تھی۔ اُس کی ماں تاجور کے ساتھ جہیز میں آئی تھی اور اُس نے تاجور کو اپنی زندگی دے دی تھی اور زندگی بھر کی خدمت کا صلہ اُسے یہ ملنے والا تھا کہ وہ اپنے گھر کی مصیبت کی بھینٹ اُس کا پیار چڑھا دیتے۔
شکوراں نے گھر کی دہلیز ابھی پار ہی کی تھی جب بتول نے انتظار کیئے بغیر اُسے سارا واقعہ سُنا دیا تھا اور شکوراں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی تھی۔
”مجھے کیا سُنا رہی ہے بتول یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ چوہدرائن جی نے ایسا کچھ سوچا ہوتا تو بھر سے پوچھتیں مجھے بتائیں۔ اُنہیں تو پتہ تھا کہ تو پسند کرتی ہے سعید کو۔” شکوراں کو یقین نہیں آیا۔
”چوہدرائن کو صرف اپنی زندگی اور خوشیوں کی پروا ہے۔ موتیا کی طرح ہم بھی کمّی کمین ہیں اُس کے لیے جنہیں جب چاہے وہ روند دے۔” بتول کا نہیں چلتا تو وہ تاجور اور چوہدری شجاع دونوں کا گلا دبا دیتی۔
”نہ نہ بتول تو ایسا نہ سوچ میں بات کروں گی صبح چوہدرائن جی سے… سعید کسی اور کا نہیں ہوسکتا اور اپنے چاچے کوبھی دیکھ نا کتنی بے شرمی اور بدلحاظی ہے اُس میں کہ وہ تیار ہوگیا چوہدری جی کے کہنے پر اُس کو بولنا چاہیے تھا… اُس کو کہنا چاہیے تھا کہ اُس نے رشتہ طے کردیا ہے۔ وہ سو لارے مجھے دیتا ہے اور پھر پیچھے پیچھے چوہدری جی کے کہنے پر گامو کے گھر بھی چل پڑتا ہے۔” شکوراں اپنے دیور کو کوسنے بیٹھ گئی تھی۔
” اماں! تو نے بات نہ کی نا چوہدرائن سے تو پھر میں بات کروں گی اور میں تو پھر سیدھا چوہدری مراد سے ہی کروں گی بات میری طرف سے بھاڑ میں جائیں باقی سب لوگ اور سارے ادب لحاظ۔”
بتول ماں کو کھری کھری سُناتے ہوئے اندر کمرے میں چلی گئی تھی اور شکوراں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اندر کیسے جائے۔ اُس کا دل چاہا تھا وہ اُلٹے قدموں حویلی جاتی اور تاجور سے پوچھتی یہ سب کر ہواکیسے پر رات ہوگئی تھی اور گاؤں کی اندھیری گلیوں اور آوارہ پھرتے کتوں سے اُس کو اُتنا ڈر نہیں تھا جتنا حویلی کے بند دروازوں کا لحاظ وہ رات گئے شکوراں کے لیے کہاں کھلنے تھے۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!