Blog

Dana-Pani-Ep-4

شکوراں صبح سویرے ہی بتول کو ساتھ لئے تاجور کے پاس پہنچ گئی تھی۔ وہ فجر کے بعد ہی ہر روز تاجور کے پاس آتی تھی مگر بتول بعد میں آتی تھی مگر آج بتول بھی اس کے ساتھ تھی۔ فجر کی نماز پڑھ کر تاجور لسی پیتی تھی اور شکوراں لسی تانبے کے گلاس میں ڈال کر بتول کے ساتھ اسے برآمدے میں دینے گئی تھی جہاں بیٹھ کر وہ تسبیح کرتی تھی۔


”آج بتول کیسے آگئی اتنی صبح ؟” تاجور نے گلاس لیتے ہوئے کچھ حیرانی سے بتول کو دیکھا تھا میں نے اُسے کچھ نروس انداز میں سلام کیا تھا۔
”بس چوہدرائن جی ایک بری خبر سن لی ہے تو بس ساری رات سو نہیں سکے میں اور میری بیٹی۔”
شکوراں نے بات کا آغاز کیا تھا اسے خدشہ تھا وہ خاموش رہی تو بتول خود بات شروع نہ کرلے۔ تاجور نے منہ سے گلاس لگاتے لگاتے گلاس ہٹالیا۔
”خیر تو ہے کیسی بری خبر؟” تاجور کو جو بھی اندیشہ لاحق ہوا تھا موتیا کے حوالے سے ہوا تھا۔
”پرویز کو چوہدری صاحب نے سعید کے لئے موتیا کا رشتہ مانگنے کے لئے کہا ہے۔” تاجو رنے شکوراں کا جملہ سنا بتول اور شکوراں کے چہرے دیکھے اور پھر دوبارہ لسی کا گلاس منہ سے لگالیا۔ شکوراں اور بتول نے بے قراری سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”ہاں۔” لسی کا گلاس ختم کرکے رکھنے کے بعد تاجور نے بے حد مختصر جواب دیا اور ان دونوں کے پیروں کے نیچے جو باقی ماند ہ زمین تھی وہ بھی نکل گئی تھی۔
”چوہدرائن جی آپ کو تو بتایا تھا میں نے سعید اور بتول کے رشتے کی بات تو کب سے چل رہی ہے۔ اب تو رشتہ تقریبا ً طے ہونے والا تھا اور سعید تو بتول کو بڑا پسند کرتا ہے میری بتول کی بھی وہیں مرضی ہے۔” شکوراں نے اٹک اٹک کر اپنا کیس پیش کیا تھا اور تاجور نے دو جملوں میں نپٹا دیا تھا۔
”بتول کا رشتہ میں کسی بڑی اچھی جگہ کرواؤں گی ابھی تو حویلی کو مسئلہ پڑا ہے وہ حل ہونے دو۔ پرویز کی مرضی نہ ہوتی تو وہ کہہ دیتا کہ اس نے بتول کے ساتھ بیاہنا ہے بیٹا پر اس نے تو کچھ کہا ہی نہیں۔ بس آج ان شاء اللہ جائے گا گامو کے گھر اور بات طے ہوجائے گی۔ یہ اندر رکھو گلاس۔”
تاجور نے آخری جملہ عجیب سے انداز میں کہا۔ اس نے حویلی کے دروازے سے موتیا کو مشک کے ساتھ آتے دیکھا تھا اور اُسے بتول اور شکوراں بھول گئیں تھیں۔ وہ اُٹھ کر صحن میں چلی گئی تھی اور بتول نے بے حد خفگی سے دبی آواز میں ماں سے احتجاج کیا تھا۔
”اماں تو نے میرے لئے بس اتنا ہی کہنا تھا؟” شکوراں نے ہونٹوں پرانگلی رکھ کر جیسے اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا۔ اُن دونوں نے موتیا کو نہیں دیکھا تھا۔ بتول پاؤں پٹختے ہوئے بڑی ناراضگی سے اندر چلی گئی تھی اور شکوراں وہیں کھڑی رہی تھی اس کا خیال تھا کہ وہ چوہدرائن سے اکیلے میں ایک بار پھر بات کرے گی اور تب ہی اس نے بھی موتیا کو حویلی کے صحن میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا ۔ تاجور تب تک موتیا کے قریب پہنچ چکی تھی۔
”السلام علیکم چوہدرائن جی۔” اس نے تاجور کو دیکھتے ہی کہا تھا۔
”تو یہاں کیا لینے آئی ہے؟” تاجور نے کسی چوٹ کھائے سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”ابا کو بخار ہے ۔ وہ آج پانی دینے نہیں آسکتے تھے اس لئے میں آئی ہوں پانی ڈالنے۔” موتیا نے تاجور سے نظر نہیں ملائی تھی۔ اس کو اب احساس تھا کہ وہ اگر اس سے ناراض تھی تو کس وجہ سے ناراض تھی۔
”گامو سے کہنا چوہدرائن نے اس کی مشک کا پانی پینا چھوڑ دیا ۔ اب نہ وہ یہاں کبھی پانی لے کر آئے نہ تیری ماں یہاں سے دانے لینے آئے۔” موتیا ہل نہیں سکی۔
ہتک کا عجیب سا احساس تھا جو چوہدرائن کے لفظوں نے اُسے دیا تھا۔
”تو نے سنا نہیں میں کیا کہہ رہی ہوں؟” تاجور اس کے ساکت ہونے پر دھاڑی تھی۔
”جا یہاں سے اور اب دوبارہ کبھی اپنی شکل نہ دکھانا۔”
تاجور کی آواز اتنی بلند تھی کہ حویلی میں کام کرتے کئی ملازم متوجہ ہوئے تھے۔ موتیا کے ہاتھ اور پاؤں کپکپانے لگے تھے۔ اس سے پہلے اس نے کبھی ایسی بے عزتی نہیں دیکھی تھی۔ اس نے محبت ، چاہت ، قدر اور عزت کے علاوہ بچپن سے آج تک کچھ دیکھا ہی نہیں تھا ۔ نفرت کا چہرہ اس نے آج دیکھا تھا اور اس کی ہیبت سے وہ وحشت زدہ ہوگئی تھی۔ اس نے بمشکل سانس لیا اور پلٹ کر جانے لگی جب تاجور نے کہا۔


”باپ ماشکی ، دادا ماشکی، سات نسلیں ماشکی… پانی بھرنے والے … اور خواب دیکھ رہے ہیں زمینوں کے مالک بننے کے… انا ج اُگانے کے… حویلی والے کہلانے کے ۔” موتیا کے قدموں کو جیسے اس کے جملوں نے زنجیر ڈال دی تھی۔
اس نے پلٹ کر تاجور کو دیکھا تھا۔ وہ حویلی کے صحن کے بیچوں بیچ کسی سلطنت کی بے رحم ملکہ کی طرح کھڑی تھی پورے کروفر اور چاہ و جلال کے ساتھ۔
”پانی بھی اُس کا … دانہ بھی اُس کا …وہ چاہے تو پانی والوں کو دانے والا کردے اور چاہے تو دانے والوں کو پانی کے لئے ترسا دے۔” موتیا کی آواز اونچی تھی نہ لہجہ سخت پر ان جملوں نے تاجور کو ہولایا تھا اور پھر غضب ناک کیا تھا۔ وہ آگے بڑھی اور اس نے کھینچ کر موتیا کے گال پر چانٹا مارا۔
”یہ ہے تیری اس بات کا جواب پیراں دتّی… آج جاکر ماں باپ سے پوچھنا کس کی دُعاؤں کے طفیل آئی ہے تو اس دنیا میں اور کس کے احسانوں پر پلی ہے تو۔” موتیا کے گال پر تاجور کی پانچ انگلیوں کے نشان تھے پر اس نے گال پر ہاتھ نہیں رکھا تھا۔ نہ اس چانٹے کی درد سے آنکھوں میں آجانے والے آنسوؤں کو پیا تھا۔ وہ بس تاجور کو دیکھتی رہی پلٹی اور پھر تقریباً بھاگتے ہوئے حویلی سے نکل گئی تھی۔ اس حویلی سے نکلتے ہوئے موتیا نے ایک بار پھر سورج کو غروب ہوتے دیکھا ۔ وہ سب جیسے زوال کے وقت ہوا تھا اور پتہ نہیں وہ کس کا زوال تھا۔
٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!