Blog

Dana-Pani-Ep-4

اللہ وسائی بڑی ہمت کرکے موتیا کے کمرے میں آئی تھی اتنے سالوں میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو اس نے کبھی آنے ہی نہیں دیئے تھے اور اب جس وجہ سے وہ آرہے تھے۔ اللہ وسائی کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
موتیا نے ماں کو چوکھٹ میں کھڑے دیکھا تھا اور اس نے دو پٹے سے اپنا چہرہ رگڑ کر صاف کیا تھا اللہ وسائی پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔


”گامو کہہ کر گیا ہے تو رو مت وہ چوہدری کو منالے گا۔” موتیا نے اپنی سادہ لوح اور سادہ دل ماں کو دیکھا جو پہاڑ سے نہر نکالنے کا خواب دکھا رہے تھے اُسے۔
”میں اس لئے نہیں رو رہی اماں میں اس لئے رو رہی ہوں کہ میری وجہ سے گاؤں میں آپ دونوں کا سر نیچا ہوا۔ عزت پر حرف آیا۔ موتیا مرجاتی تو یہ نہ ہوتا۔”
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی اور اللہ وسائی تڑپ اُٹھی تھی۔
”لے بھلا یہ کیا کہہ رہی ہے تو؟ تو تو ہماری سوہنی دھی ہے اللہ نہ کرے تجھے کبھی کچھ ہو تجھے تو ہماری حیاتی لگ جائے۔ ارے جھلیے ہوجاتا ہے پیار… کوئی گناہ تھوڑی کردیا ہے تونے۔ دل کی بات ہے نا دل تو آجاتا ہے کسی پر۔” اللہ وسائی پتہ نہیں کیا کیا لفظ اور توجیہات ڈھونڈ ڈھونڈ کر موتیا کو تسلی دے رہی تھی اُس کا دل بہلارہی تھی آنسو خشک کرنے کی کوشش کررہی تھی بالکل اسی طرح جس طرح وہ بچپن میں اُسے لوریاں دیا کرتی تھی اور لوریاں سن کر وہ یا ہنسنے لگتی یا سوجاتی پر اب وہ بس ماں کا چہرہ ہی دیکھتی رہی تھی۔
”تونے کیا سرنیچا کرنا ہے ہمارا موتیا… تو تو وہ وجہ ہے جو ہمارے جینے کا آسرا بنی ہے تجھے سو غلطیاں سو خون سو گناہ معاف کرسکتے ہیںمیں اور تیرا ابا۔ تیرے لئے اللہ نے ہمارے سینوں میں دل نہیں سمندر ڈال دیاہے۔” وہ اسے ساتھ لگا کر جیسے لوری دینے لگی تھی اور موتیا بچپن ہی کی طرح سنبھل رہی تھی بہل رہی تھی اس کے آنسو تھمنے لگے تھے۔
”اماں میں اب کبھی مراد کا نام نہیں لوں گی۔’
‘ اس نے اپنے آنسو پونچھنے کے بعد جیسے ماں کو حلف دیا تھا بالکل اس طرح جس طرح بچپن میں مراد کا سکول چھٹنے کے بعد اس نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اللہ وسائی کچھ کہتی باہر سے گامو کی اونچی اونچی آوازیں آنے لگی تھیں۔ وہ دونوں کو پکار رہا تھا اور پکارتا ہی جارہا تھا۔ اللہ وسائی کچھ گھبرائی ہوئی اُٹھ کر باہر بھاگی تھی اور موتیا بھی اس کے پیچھے لپکتی ہوئی گئی۔
”چوہدری صاحب مان گئے ہیں۔ کہہ رہے ہیں رشتہ لے کر آئیں گے چوہدرائن کے ساتھ اور بس پھر دنوں میں لے جائیں گے موتیا کو مراد کی دُلہن بناکر۔”
گامو نے اللہ وسائی کو دیکھتے ہی ایک ہی سانس میں اُسے جو خوشخبری سنائی تھی۔ اللہ وسائی کو اس پریقین آیا تھا نہ موتیا کو جس نے دم سادھے گامو کو دیکھا تھا۔ جو اب صحن میں ناچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”ڈھولک رکھ اللہ وسائی… مٹھائی منگوا … لوگوں کو بلا… دیکھ ہمارے گھر خوشیاں آرہی ہیں۔ شہزادہ آرہا ہے ہماری پریوں جیسی بیٹی کو بیاہ کر لے جانے کے لئے۔”
گامو ناچنا چارہا تھا اور کہتا جارہا تھا۔ اور اللہ وسائی اور موتیا ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہی تھیں… بے یقین کے ساتھ… یہ ہوگیا تھا تو کیسے ہوگیا تھا۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!