Blog

Dana-Pani-Ep-4

”چوہدری صاحب میں تو آپ کے حکم پر سر کے بل دوڑتا ہوا گیا تھا گامو کے گھر پر اس کا اور اس کی بیٹی کا دماغ بڑا خراب ہے۔”
پرویز گامو کے گھر سے سیدھا حویلی آیا تھا اور اس نے چوہدری شجاع سے اکیلے میں ملنے کی درخواست کی تھی اور اب وہ اسے سب کچھ سنا رہا تھا۔


”صاف انکار کردیا دونوں نے اور گامو نے تو مجھے یہ بھی کہا کہ میں اس کا انکار آپ تک بھی پہنچاؤں۔ میں تو اس کمی کمین کے تیور دیکھ کے حیران ہوا ہوں چوہدری صاحب۔” گامو ایسے بھی بات کرسکتا ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ” پرویز چوہدری شجاع سے کہہ رہا تھا اور چوہدری شجاع حقہ کی نے ہونٹوں سے لگائے ہوئے اس کی باتوں پر کچھ سوچتے ہوئے حقے کے کش لگاتے رہے۔ انہوں نے اس مسئلے کا ضرورت سے زیادہ آسان اور سیدھا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ چوہدری شجاع نے دل ہی دل میں اعتراف کیا تھا۔
”چوہدری صاحب وہ گامو آیا ہے کہہ رہا ہے آپ سے ملنا ہے۔”
بالکل اُسی لمحے ملازم نے اندر آکر چوہدری صاحب کو گامو کے آنے کی اطلاع دی تھی اور چوہدری شجاع اور پرویز دونوں چونکے تھے۔
”ٹھیک ہے بلاؤ اُسے اندر اور پرویز تو اب جا… تجھ سے میں بعد میں بات کروں گا۔” چوہدری شجاع نے ساتھ ہی پرویز کو جانے کا اشارہ بھی کردیا تھا۔
”چوہدری صاحب آپ نے رکھ کے اس کی بے عزتی کرنی ہے ۔اس نے اپنے آپ کو سمجھ کیا لیا ہے؟” پرویز نے اٹھتے ہوئے جیسے چوہدری شجاع کو اکسایا۔ وہ حقے کی نے ہونٹوں میں دبائے اُسی طرح بیٹھا رہا اس نے پرویز کی بات پر نہ ہوں کی تھی نہ ہاں ۔
اندر آتے ہوئے گامو اور پرویز کا آمنا سامنا دروازے پر ہوا تھا۔ پرویز نے اُسے تنفّر سے دیکھا تھا اور گامو نے اُسے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔
وہ سیدھا آگے آیا تھا اور چوہدری شجاع کے پیروں میں ان کے پیر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔
”ایک بار چوہدری مراد کی جان بچائی تھی میں نے اور آپ نے کہا تھا بڑا احسان کیا ہے میں نے آپ پر اور جب چاہوں اُس احسان کا بدلہ مانگنے آسکتا ہوں اور جو بھی مانگوں گا آپ انکار نہیں کریں گے تو آج اسی احسان کا بدلہ مانگنے آیا ہے گامو۔ موتیا کو اپنی بیٹی بنالیں چوہدری مراد کے ساتھ اس کی شادی کردیں۔”
گامو نے چوہدری شجاع کے پیروں میں بیٹھ کر روتے ہوئے جو کہا تھا۔ اُس نے چوہدری شجاع کو باندھ کر رکھ دیا تھا۔ وہ سارے جملے اور لفظ بھک سے اس کے دماغ سے غائب ہوگئے تھے جو اس نے گامو کو سمجھانے کے لئے سوچ کر رکھے ہوئے تھے۔
حقے کی نے گڑگڑاتا ہوا چوہدری شجاع جیسے کوئی جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرنے میں لگا رہا اور اپنے پیروں پر وہ گامو کے آنسوؤں کی نمی محسوس کرتا رہا۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد چوہدری شجاع نے حقے کی نے ہونٹوں سے ہٹائی تھی۔
”ٹھیک ہے گامو ۔ تجھ کو جو زبان دی تھی اس سے پھروں گا نہیں میں۔ آئیں گے موتیا کا رشتہ لینے اور بس دنوں میں شادی کرکے لے جائیں گے۔” گامو نے سراٹھا کر چوہدری شجاع کا چہرہ دیکھا تھا اور اس پر جیسے شادی مرگ طاری ہوگیا تھا۔ وہ کچھ بولنا چاہتا تھا اس سے بولا نہیں گیا۔ ہنسنا چاہتا تھا ۔ ہنسا نہیں گیا ۔ رونا چاہتا تھا رویا بھی نہیں گیا۔ چوہدری شجاع شاید اس کی کیفیت جان گیا تھا وہ نرمی سے اُسے تھپک کر اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!