Blog

Dana-Pani-Ep-4

مراد کو بتول کی بات سمجھ میں ہی نہیں آئی تھی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ کس کا رشتہ گیا ہے موتیا کے لئے؟”
وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے باہر سے اپنے کمرے میں آیا تھا جب بتول اس کے کمرے کا دروازہ بجاکر اندر آگئی تھی اور مراد حیران ہوا تھا۔ حویلی میں کسی مرد کی موجودگی میں کوئی بھی ملازمہ اس کے کمرے میں نہیں جاتی تھی… اور یہاں وہ دن دہاڑے آکر اس کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی اور پھر اُس نے چوہدری مراد کو جو بتانا شروع کیا تھا اس نے اسے کنفیوز کردیا تھا۔


”چوہدرائن اور چوہدری صاحب نے میرے چاچے کے بیٹے کا رشتہ موتیا کے گھر بھیجا ہے۔ سعید سے میں پیار کرتی ہوں چوہدری جی اور بچپن سے کرتی ہوں۔ میرے ساتھ ظلم نہ ہونے دیں۔”
وہ بتول کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”کچھ نہیں ہوگا۔ تو جا یہاں سے۔” بتول نے اس کے ساتھ مراد کو دیکھا تھا۔
”آپ مجھے زبان دے رہے ہیں نا چوہدری جی؟”
”ہاں زبان دے رہا ہوں۔ تیرے چاچے کے بیٹے کے ساتھ نہیں ہوگا موتیا کا رشتہ۔ تیرے ساتھ ہی ہوگا۔ ” بتول کو لگا جیسے کسی نے اس کے سینے سے ایک پتھر ہٹالیا تھا پر اسے اندازہ نہیں تھا وہ پتھر اب مراد کے سینے پر آگیا تھا۔ وہ بتول کے جانے کے بعد سیدھا تاجور کے کمرے میں پہنچ گیا تھا۔
”آپ نے سعید کا رشتہ موتیا کے گھر بھیجا ہے؟” اس نے آتے ہی ماں سے کہا جو اپنی الماری کھولے اپنے کپڑے نکال رہی تھی۔ تاجور نے پلٹ کر بیٹے کو دیکھا پھر بڑے اطمینان سے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”تجھے کس نے بتایا؟”
”مجھے بتول نے بتایا ہے ۔ وہ سعید سے پیارکرتی ہے اور آپ نے سعید کا رشتہ موتیا کے لئے بھجوادیا۔” وہ بے حدخفگی سے تاجور سے بات کررہا تھا اور تاجور بڑے اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرتے ہوئے اس کی بات سنتی رہی جب اس نے اپنی بات مکمل کرلی تو اس نے کہا۔
”تجھے بتول نے کہا کہ سعید کا رشتہ ہم نے بھجوایا ہے تو تو ماں سے پوچھنے آکھڑا ہوا ہے حالانکہ یہ سوال تجھے موتیا سے کرنا چاہیے تھا۔” مراد ماں کی بات اور انداز پر اُلجھا تھا۔
”اس سے پوچھنا چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ چکر چلا کر وہ سعید کے رشتے پر غور کیوں کررہی ہے؟”
”امی میں سمجھ نہیں رہا آپ کی بات کو۔” مراد کی سمجھ میں نہیں آیا تھا وہ تاجور سے کیا پوچھے۔
”جب بتول سعید سے پیا ر کرتی ہے تو موتیا کو بھی پتہ ہوگا پھر اس نے کیوں آنے دیا سعید کے ماں باپ کو اپنے گھر۔” تاجور نے تیکھے انداز میں اس سے کہا۔
”آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟”
”میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ موتیا تجھے بے وقوف بناسکتی ہے تو سعید کو نہیں بناسکتی؟اختر کو نہیں بناسکتی؟ شریف کو نہیں بناسکتی؟” ایک لمحے کے لئے ان جملوں پرمراد بول ہی نہیں سکا۔
”اماںآپ موتیا کے کردار پر کیچڑ اچھال رہی ہیں۔ ایسا مت کریں۔” اس نے ماں کو سختی سے ٹوکا تھا اور اس کی ماں ہنسی تھی۔
”مجھے کیا ضرورت ہے موتیا پر کیچڑ اُچھالنے کی۔ اس کام کے لئے وہ خود کافی ہے۔ چار دنوں میں تجھے پاگل کردیا لندن میں پڑھنے لکھنے والے بیرسٹر کو تو سوچ گاؤں کے سیدھے سادھے لڑکے تو اس کے سامنے پانی بھرتے ہوں گے۔ اور میں نہیں کہتی کہ بس موتیا ہی خراب ہے۔ گاؤں کی کمی کمینوں کی لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں مراد۔ درجنوں لڑکوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے ان کا اسی لئے تو دو منٹ لگتے ہیں انہیں کسی بھی لڑکے کو پھنسانے کے لئے۔ تو جاکر موتیا سے پوچھ کہ سعید کون ہے اور اُسے کیسے جرأت ہوئی اس کے لئے رشتہ بھیجنے کی۔ اور بتول کو تو پتہ ہی اب چلا ہوگا کہ اس کی سہیلی اسے بھی دھوکہ دے رہی تھی۔” تاجور کو بیٹے کے چہرے پر کئی رنگ آتے نظر آئے تھے اور جب اُس کی خاموشی سے اسے یقین ہوگیا تھا کہ وہ اس کی باتوں میں آگیا تھا تب مراد نے کہا تھا۔


”اماں ساری دُنیا کی لڑکیوں کا کردار ایک طرف… موتیا ایک طرف آپ میری ماں نہ ہوتیں تو میں یہ سب کہنے والے کی زبان کھینچ لیتا یا دوبارہ اس کی شکل ہی نہ دیکھتا۔ پر آپ ماں ہیں آپ کے سامنے میں صرف ہاتھ جوڑ سکتا ہوں کہ آپ یہ نہ کہیں۔ آپ جو بھی کہہ لیں جو بھی کرلیں وہ میرے دل سے نہیں نکلے گی۔ ” تاجور کو لگا وہ اس وقت ریت کے مجسمے کی طرح بھربھراکر بکھری تھی۔ کیا تھی یہ موتیا کہ اس کا بیٹا ماں کو جھوٹا کہہ رہا تھا۔ کسی ثبوت اور گواہی کے بغیر بھی موتیا کو سچا مان رہاتھا۔ تاجور کا بس چلتا تو وہ اس لمحے کسی جن کی طرح موتیا کو مکھی بنادیتی اور مکھی بناکر بھی دیوار سے نہ چپکاتی اسے اپنے پاؤں کے نیچے مسلتی۔
”آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے سعید کا رشتہ نہیں بھجوایا تو میں مان لیتا ہوں لیکن میں خود بات کروں گا سعید اور سعید کے باپ سے کہ وہ کیوں گئے ہیں موتیا کے گھر؟”
وہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا تھا۔ اور تاجور کا دل چاہا وہ اس الماری کا ہر کپڑا نکال کر دوبارہ کھول کھول کرپھینکے جنہیں اس نے ابھی تہہ کرکرکے رکھا تھا۔ وہ اس کی اکلوتی اولاد تھا اور وہ اس کے سامنے موتیا کا کلمہ پڑھ کے گیا تھا۔
٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!