Blog

Dana-Pani-Ep-4

بتول کو لگ رہا تھا یا وہ پاگل ہے یا پھر موتیا جسے وہ پچھلے آدھ گھنٹے سے حویلی میں ہونے والے واقعات سنارہی تھی اور وہ جواباً ہوں ہاں کرتے ہوئے گود میں دوپٹے کے دامن میں چنی ہوئی بیر اُٹھا اُٹھاکر کھا رہی تھی جسے وہ چن چن کر اکٹھاکرکے لائی تھی۔ بتول نے ایک بار بھی اس کے چہرے اور آنکھوں میں کچھ تشویش کوئی پریشانی نہیں دیکھی تھی۔ نہ اس نے ماہ نور کے بارے میں پوچھا تھا نہ شگن کے بارے میں کریدا تھا۔
”موتیا تو سمجھ رہی ہے کہ میں جھوٹی ہوں جو تجھے مراد اور ماہ نور کی بات طے ہوجانے کے بارے میں بتارہی ہوں اور تو کان تک نہیں دھر رہی۔” بتول نے بالاآخر جیسے زچ ہوکر کہا تھا۔ موتیا نے اس کی بات پر پہلی بار سراٹھا کر دیکھا پھر ایک بیر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔


”بات سن بتول مراد مجھے کہہ کر گیا ہے کہ وہ رشتہ بھیجے گا تو وہ بھیجے گا اور میں نے تو خواب میں بھی چوہدرائن کو گھر آتے دیکھا ہے تو مجھے فکر نہیں تو بیر کھا۔” اس کے انداز میں اتنا اطمینان تھا کہ بتول جھلس کر رہ گئی تھی۔
”کتنے دن ہوئے تھے تجھے مراد سے ملے کہ ایسا اندھا اعتماد ہوگیا ہے ۔ لوگ سالوں محبت کرتے ہیں تب بھی وہمی رہتے ہیں۔ یہ تیری محبت ہے کیا موتیا؟” بتول کو واقعی سمجھ نہیں آئی تھی اس نے اس کے خوابوں کی بات نہیں کی تھی کیونکہ وہ اس کے خوابوں کو کبھی جھوٹا نہیں کہہ سکتی تھی۔
موتیا نے جو ہنسنا شروع کیا تھا اس کی بات پر تو بس ہنستی ہی چلی گئی تھی اور اتنا ہنسی تھی کہ بتول کو بھی ہنسی آنے لگی تھی۔
”تجھے کس نے کہہ دیا بتول کہ محبت کو دہائیاں چاہیے سچا اور پکا ہونے کے لئے؟ محبت کا دھاگہ تو رب ڈالتا ہے دو دلوں میں اور رب ہی نکالتا ہے مراد نے دھوکہ دینا ہوتا تو بس پھر دھوکہ ہی دیتا پیار کرنے تھوڑی ملتا مجھے۔” بتول اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی ۔
”اور اگر وہ تیرا نہ ہوا تو پھر؟ ” اس نے موتیا سے پوچھا تھا۔
”میرا نہ ہوا تو پھر کسی کا بھی نہیں رہنا اس نے بتول اس لئے تو رب سے دُعا کیا کر کہ وہ مجھے مل جائے۔” موتیا نے عجیب سے لہجے میں کہہ کر بیر کھا ل کے چلتے ہوئے پانی میں اُچھال دی تھیں۔ بتول کو اس جملے کی سمجھ بھی نہیں آئی تھی اُسے کئی بار موتیا کی کئی باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی اور کئی بار کوئی باتوں کی بعد میں سمجھ آتی تھی۔ گامو اور اللہ وسائی کی اس اکلوتی بیٹی کی زبان میں کچھ تھا جو چونکاتا بھی تھا اور ڈراتا بھی تھا اور آس بھی لگاتا تھا۔ بتول ہمیشہ کی طرح اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی تھی۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!