Blog

Dana-Pani-Ep-4

تاجور اس دن مراد کے لئے ناشتے کی میز سجا کر بیٹھی رہی تھی اور وہ کمرے سے ہی نہیں نکلا تھا ۔ وہ بھوک برداشت نہیں کرسکتا تھا اور تاجو رکو یہ خیال ہی نہیں گزرا تھا کہ وہ کھانا چھوڑ دے گا۔ کئی بار ملازم بھیجنے کے بعد بھی جب وہ ناشتہ کرنے نہیں آیا تو تاجور خود اس کے کمرے میں چلی گئی تھی۔ وہ بستر پر چٹ لیٹا ہوا تھا ماں کو دیکھنے پر اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
”کیا ہوا بیٹا تم ناشتے کے لئے نہیں آرہے میں انتظار میں بیٹھی ہوں۔” تاجور نے اپنا لہجہ حتی المقدور نارمل رکھتے ہوئے کہا تھا یوں جیسے کل کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔


”ناشتہ نہیں کرنا میں نے۔” اس نے جواباً بے حد سرد مہری کے ساتھ ماں سے کہا تھا۔
”کیوں؟” تاجور نے جانتے بوجھتے انجان بننے کی کوشش کی۔
”میں اب تب تک اس گھر سے کچھ بھی نہیں کھاؤں گا جب تک آپ اپنی ضد چھوڑ نہیں دیتیں۔” مراد نے کسی لگی لپٹی کے بغیر ماں سے کہا تھا اور تاجور اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
”میں ضد چھوڑ دوں پر تو ضد پر ڈٹا رہے اور میری ضد کی تو پروا ہی نہ کر تو میں نے کہا تو ہے تجھ سے میں زہر کھالیتی ہوں تو جاکر بیاہ لا اُسے۔”
اس نے مراد سے اسی سرد مہری سے بات کرنا شروع کردی تھی جو اس کے لہجے میں تھی۔ وہ جواباً ماں کا چہرہ دیکھتا رہا جانتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہی تھی کرنے کی ہمت رکھتی تھی۔ تاجور بھی اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ یوں جیسے اس کے چہرے پر کسی بے چینی کسی اضطراب کو کھوجنے کی کوشش کررہی تھی۔ چند لمحے اُسے اسی طرح دیکھنے کے بعد مراد نے اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولا تھا اور اس نے اس میں سے ایک ریوالور نکال کر سائیڈ ٹیبل کے اوپر رکھ دیا۔ تاجور کی جان جیسے ہوا ہوئی تھی۔
”میں آپ کو موتیا سے شادی پر مجبور کروں گا تو آپ زہر کھالیں گی۔ آپ مجھے ماہ نور سے شادی پر مجبور کریں گی تو میں خود کو گولی مارلوں گا۔” تاجور ضدی تھی پر ماں تھی وہ تڑپ اُٹھی تھی۔
”تو میرا اکلوتا بیٹا ہے مراد کتنی منتوں و مرادوں اور چاؤ والا… تو ایک لڑکی کے لئے ماں سے نافرمانی کررہا ہے۔” تاجور نہ چاہتے ہوئے بھی روپڑی تھی۔
”اس میں آخر ایسی کیا چیز ہے کہ یوں پاگل ہوگیا ہے تو؟”
”پتہ نہیں میں نے کبھی بیٹھ کر یہ نہیں سوچا کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے ۔ یہ سوچنے آپ بیٹھی ہوں گی… میں نے تو بس ایک فیصلہ کیا ہے اور آپ کو بتادیا ہے۔ نہ میں موتیا سے شادی کروں گا نہ کسی اور سے۔ آپ کی نسل مجھ سے شروع ہوکر مجھ پر ہی ختم ہوجائے گی۔ پر کم از کم آپ کی نافرمانی تو نہیں ہوگی اور نہ میں پیار میں جھوٹا پڑوں گا۔”
وہ تاجور کو کہہ کر وہاں رُکا نہیں تھا، نکل گیا تھا اور جاتے ہوئے وہ ریوالور بھی ساتھ لے گیا تھا۔ تاجور برف کا بُت بنی تھی اور بنی ہی رہی تھی۔ اس نے مراد کو پیدا کرتے ہوئے اتنی تکلیف نہیں اٹھائی تھی جتنی تکلیف مراد کے اس انداز نے اُسے دینی شروع کی تھی۔


٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!