”تیری عقل بھی کئی دفعہ گھاس ہی چرنے چلی جاتی ہے اللہ وسائی۔ موتیا کو کیوں بھیجا ہے تو نے حویلی میں پانی دینے؟ اتنا وزن اُٹھاکے کیسے اتنا چلے گی میری دھی اور پھر حویلی والے کیا سوچیں گے کہ ڈاکٹر بیٹی کو کن کاموں میں لگایا ہوا ہے گامو اور اللہ وسائی نے۔”
گامو نے بہت ناراضگی سے اللہ وسائی کو کہنا شروع کیا تھا ۔ جو اس کے لئے دلیہ بناکر لائی تھی اور ناشتہ کرنے کے لئے اس نے اسے نیند سے جگایا تھا اور گامو نے اُٹھتے ہی سب سے پہلے موتیا کا پوچھا تھا اور اب وہ ناشتہ بھول بھال کے پریشان ہورہا تھا۔
”میں نے تو روکا تھا گامو پر تجھے موتیا کا پتہ تو ہے۔ ضد کرنے لگی کہ بس میں ہی دے کے آؤں گی اور ابا کے جاگنے تک آجاؤں گی پھر ابا کو دوائی دوں گی تو یخنی بناابا کے لئے۔ وہ بخار میں ہمیشہ یخنی پیتا ہے۔” اللہ وسائی نے گامو سے کہا تھا۔ اس سے پہلے کہ گامو کچھ کہتا باہر کا دروازہ کسی نے زور سے بجایا تھا۔
”دیکھ کتنی لمبی عمر ہے ابھی نام لیا ابھی آبھی گئی۔” اللہ وسائی نے مطمئن سے انداز میں کہا اور باہر جانے لگی تو گامو نے اُسے روک دیا۔
”میں دیکھتا ہوں اسے جاکر ۔ طبیعت ٹھیک ہے اب میری۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ کر باہر نکلا اور اس نے دروازہ کھول دیا۔ موتیا کی بجائے دروازے پر پرویز کو کھڑا دیکھ کے وہ حیران رہ گیا تھا۔
”سلام گامو…” پرویز بڑی گرم جوشی سے اس سے ملا تھا اور گامو بڑی حیرانی سے۔
”تجھ سے کچھ بات کرنی ہے۔ اندر چل کے بیٹھتے ہیں۔” پرویز کی اگلی بات پر وہ جیسے اور حیران تھا۔
”ہاں ہاں پرویز بھائی آجائیں اندر۔”
وہ کہتے ہوئے اسے لے کر اندر آگیا تھا۔ صحن میں پڑی چارپائی کو سیدھا کرکے وہیں ڈالتے ہوئے گامو نے اللہ وسائی کو آواز دی اور لسی لانے کے لئے کہا۔
”نہ نہ گامو میں ناشتہ کرکے آیاہوں اور لسی بھی پی کر آیا ہوں ۔ بس تو بیٹھ کر بات سن لے میری۔” پرویز نے فوراً سے پیشتر اسے منع کرتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں ہاں پرویز بھائی تو کر بات ۔” گامو نے چارپائی پر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”چوہدری شجاع نے مجھے بھیجا ہے تمہارے گھر۔ سعید اور موتیا کے رشتے کے لئے۔ میں تو جی جان سے راضی ہوں ۔ تو بتا تیری کیا مرضی ہے؟ بیٹا میرا گھبرو جوان ہے۔ پڑھا لکھا بھی ہے تھوڑا بہت اور اتنی بڑی کمپنی میں کام کرتا ہے کویت میں۔ تیری دھی کو بڑا خوش رکھے گا۔”
پرویز بولتا ہی چلا گیا تھا ۔ اُس نے گامو کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ یوں جیسے اُسے یقین تھا کہ گامو خوشی خوشی فوراً سے پہلے اس کی بات پر ہاں کردے گا۔ پر گامو گم صم اسے نہیں دروازے کی دہلیز پر کھڑی موتیا کو دیکھ رہا تھا جو بالکل اُس ہی وقت گھر میں داخل ہوئی تھی اور اس نے دہلیز پر کھڑے کھڑے پرویز کی ساری باتیں سنی تھیں اور وہ جیسے ہل ہی نہیں پارہی تھی اور کچھ یہی حال اللہ وسائی کا بھی تھا۔ جوبرآمدے میں کھڑی تھی۔ پرویز نے بھی بالکل اُسی وقت موتیا کو دیکھ لیا تھا اور اس نے بڑی خوش دلی سے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
”لو موتیا بھی آگئی۔ ماشاء اللہ میں نے تو آج بڑے سالوں بعد دیکھا ہے۔ ٹھیک کہہ رہی تھی تیری بھرجائی کہ ماشاء اللہ بڑے رنگ روپ والی ہے۔ میرے سعید کے ساتھ اس کی جوڑی بڑی سجے گی۔ ” پرویز ہنسا تھا۔ موتیا دہلیز سے اندر آگئی اور گامو کے کچھ کہنے سے پہلے اس نے پرویز سے کہا تھا۔
”چاچا میں نے سعید سے شادی نہیں کرنی۔” پرویز اس کے جملے پر جیسے حیران ہوا تھا۔ اس نے گامو کا منہ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”رشتوں کی باتوں میں دھیاں نہیں بولتیں موتیا۔ میرا تو سعید بھی چپ بیٹھا رہا ہے میری بات سن کر۔” پرویز نے جیسے گامو کو کچھ کہنے کے لئے اُکسانے کی کوشش کی تھی۔
”سعید کا رشتہ بتول سے کردیں آپ کیونکہ وہ بتول کو پسند کرتا ہے۔” موتیا نے ایک بار پھر گامو کے کچھ کہنے سے پہلے پرویز سے کہا تھا اور پرویز کو جیسے مرچیں لگ گئی تھیں۔
”تیرے مشورے کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔ میرا بیٹا ہے اور فرمانبردار بیٹا جہاں دل کرے گا اس کی شادی کروں گا میں۔ اور گامو تو منہ سے کچھ پھوٹ یا ساری باتیں تیری بیٹی ہی کرے گی مجھ سے۔” پرویز اب تپا ہوا تھا۔
”میرا بھی وہی جواب ہے جو موتیا کا ہے پرویز۔”
پرویز کو کم از کم گامو سے یہ جملہ سننے کی توقع نہیں تھی جو اس نے سنا تھا۔ اس کا خیال تھا بیٹی کچھ بھی کہہ رہی ہو کم از کم گامو سوچنے کے لئے وقت مانگے گا۔
”اور چوہدری صاحب ان کو کیا کہوں جاکے؟” پرویز بھی یک دم ہتھے سے اکھڑا تھا۔
”ان کو بھی جاکے میرا انکار پہنچادے اور تو کیوں جائے گا میں خود بات کرلوں گا ان سے ۔” گامو نے کہا تھا اور پرویز ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
”مجھے بھی کوئی شوق نہیں تیری عیبوں والی بیٹی کو ڈھکنے کا جس پر پورا گاؤں تھوتھو کررہا ہے یہ تو میں چوہدری صاحب کے کہنے پر لحاظ میں آگیا تھا ۔ حالانکہ تیری بیٹی اور چوہدری مراد کا نام توگاؤں کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔”
پرویز نے بے حد حقارت سے اگلے جملے بولے تھے اور اس سے پہلے کہ گامو یا اللہ وسائی کچھ کہتے وہ ان کے گھر سے نکل گیا تھا مگر اس کے الفاظ کسی سیسے کی طرح موتیا کے کانوں میں اترے تھے اور اس کے ماں باپ کی سماعتوں میں بھی۔ اس نے ساری عمر ماں باپ کو ہر ایک کے سامنے اپنی وجہ سے سر اٹھاتے ہی دیکھا تھا اور آج پہلی بار کوئی اس کے کردار پر انگلی اٹھا کر گیا تھا۔ موتیا کا دل پہلی بار ڈوب کے مرجانے کو چاہا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ سے نظریں نہیں ملاپارہی تھی جو اسی کی طرح گم صم کھڑے تھے۔ وہ جملے ان پر بھی قیامت کی طرح بھاری تھے پر اس سے بڑا غم انہیں یہ تھا کہ وہ سب موتیا نے بھی سن لیا تھا۔
موتیا سرجھکائے اگلے کئی لمحے اسی طرح کھڑی رہی اور پھر اسی طرح سرجھکائے ہوئے وہ اندر کمرے میں چلی گئی تھی ۔ اس نے مشک اپنی پشت سے اتار کر وہیں رکھ دی تھی جہاں وہ کھڑی تھی۔ یک دم ہی وہ مشک اُسے منوں بھاری لگنے لگی تھی۔ گامو اور اللہ وسائی اُسے اندر جانے سے روک نہیں سکے تھے۔ جب وہ اندر چلی گئی توگامو نے بیوی سے کہا۔
”تجھے کہا تھا نا میں نے کہ چوہدرائن نہیں لائے گی رشتہ۔ پر موتیا کو جاکر کہہ دے کہ روئے نہ غم نہ کرے۔ اس کو کہنا اس کا باپ لاکر دے گا اسے وہ چیز جس سے وہ پیار کر بیٹھی ہے…چاہے وہ چوہدری مراد ہی کیوں نہ ہو۔ بس وہ روئے نہ۔چوہدری شجاع نے کہا تھا مجھے تیر اایک احسان ہے مجھ پر گامو تو نے چوہدری مراد کی جان بچائی ہے۔ جب بھی اس احسان کی قیمت لینی ہو تو آجانا۔ تو جو مانگے گا میں دوں گا۔ آج جاؤں گا چوہدری شجاع کے سامنے اپنی جھولی پھیلاکے… مانگوں گا اس سے اسی احسان کی قیمت۔”
گامو نے اللہ وسائی سے کہا تھا اور پھر وہاں رُکے بغیر باہر نکل گیا تھا۔ اللہ وسائی نے ایک نظر باہر جاتے ہوئے گامو کو دیکھا تھا۔ ایک نظر اندر اُس کمرے کو دروازے کو جہاں سے موتیا گئی تھی اور اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کرے۔ گامو کا انتظار کرے یا موتیا کو جاکر روتا ہوا دیکھے۔ دونوں ہی کام مشکل تھے۔ دونوں ہی کام جان جھوکھوں والے تھے۔
٭…٭…٭