“اُسے کہو دن کو آئے۔ رات کو گھر سے نکلے گی تو بدنامی مول لے گی اور اُس کی عزت مجھے اپنی عزت سے زیادہ پیاری ہے۔”
بتول نے مراد کو موتیا کا پیغام پہنچایا تھا اور اُس نے جواباً اُس سے کہا تھا۔ بتول اُس پر مرمٹی تھی ۔
یہ کیسا مرد تھا جو رات کے اندھیرے میں ملنا نہیں چاہتا تھا دن کے اُجالے میں اپنی محبوبہ سے ملاقات چاہتا تھا جسے محبوبہ کی نیک نامی کی پروا اپنی بدنامی سے زیادہ تھی۔ اور وہ سعید سے ہمیشہ رات کے اندھیرے میں ملتی تھی۔ وہ بلاتا ہی رات کو تھا ۔ اُسے سعید پر ایک بار پھر غصہ آیا۔ اُس کی بزدلی پر اور اُس کی بے غیرتی پر لیکن اپنی بے بسی اور مجبوری پر اُس سے بھی زیادہ ۔ وہ موتیا ہوتی تو اُسے مراد ملتا۔ وہ بدبخت بتول تھی اس لئے اسے سعید ملا تھا۔ بتول نے جیسے خود ہی کوسا تھا یہ جاننے کے باوجود کہ ان کوسنوں سے بھی سعید نے سعید ہی رہنا تھا اُس نے مراد نہیں بن جانا تھا۔
“دیکھا بتول… نہیں ملتاوہ مجھ سے رات میں۔”
موتیا بتول کی زبان سے مراد کا جواب سن کر ہنسی تھی اور ہنستی ہی چلی گئی تھی۔
” مجھے پتہ تھا انکار ہی آئے گا اُس کا۔ وہ مجھ سے رات کو ملنے پر تیار ہوجاتا تو موتیا کے دل سے اُتر جاتا۔”
بتول اُس کا بھی چہرہ ہی دیکھتی رہ گئی تھی۔ وہ عشق کی کون سی داستانِ رقم کرنے جارہے تھے جن کے امتحانوں اور پرکھوں میں ایسے امتحان ہوتے تھے۔اور محبوب کی صداقت کویوں پرکھا جانا تھا۔ یا پھر بتول یہ سوچتی کہ وہ عشق کی کون سی معراج پر تھے کہ ایک دوسرے سے ملنے کے لئے بے قرار ہوتے ہوئے بھی دن اور رات کی حدیں پھلانگنے کو تیار نہیں تھے۔ ایسا کبھی بتول اور سعید کے پیار میں تو نہ ہوا تھا ۔ وہ پتہ نہیں بار بار کیوں خود کو اور سعید کو اُن دونوں کے برابر لاکر کھڑا کردیتی تھی۔
“تو بس پھر ٹھیک ہے ۔ دن دہاڑے ملوں گی اُس سے… وہیں کنویں پر … اور تم بھی ساتھ ہوگی میرے بتول۔” موتیا نے یک دم اعلان کرنے والے انداز میں اُس سے کہا تھا۔
“مجھے کیوں ساتھ رکھتی ہے میرے سامنے تو بات بھی نہیں کرسکوگے تم دونوں؟”
بتول نے فوراً ہی جیسے ہاتھ کھڑے کردیئے تھے۔ موتیا کے ہونٹوں پر عجیب پراسرار سی مسکراہٹ آئی تھی یوں جیسے اُسے اُس کی بات بے وقوفانہ لگی ہو۔
٭…٭…٭