Blog

Dana-Pani-Ep-3



بتول اُس دن صبح سویرے روز کی طرح حویلی میں داخل ہوئی تھی جب صحن میں چلتا ہوا مراد اُس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔
“تم موتیا کی سہیلی ہو؟” اُس نے بتول کے سلام کے جواب میں کہا تھا۔
بتول کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے ۔ مراد نے جیسے اُس کی مشکل آسان کردی تھی۔
“تمہیں دیکھا تھا میں نے موتیا کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر اور پھرٹانگے میں۔ ” اُس نے جیسے بتول کے لئے اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑ ی تھی۔
“جی۔” بتول نے مختصر جواب دیا۔ وہ مراد کو سراُٹھا کر دیکھ نہیں سکی اُس سے مراد کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھا ہی نہیں جاتا تھا یہ کام صرف موتیا کو آتا تھا۔
“مجھے موتیا سے ملنا ہے ۔ اُسے میرا پیغام پہنچا دو۔” بتول نے اس بار ہڑبڑا کر اُسے دیکھا تھا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اُس پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔
“میں اُسے آپ کا پیغام دے دوں گی لیکن پتہ نہیں وہ آپ سے ملے نہ ملے۔” اُس نے مراد سے کہا اور مراد کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ آئی۔
“تم بس اُسے پیغام دینا اور وقت بتانا کہ میں کب کنویں پر آؤں۔” وہ اُسے کہہ کر بڑے یقین سے وہاں سے چلا گیا تھا۔ یوں جیسے اُسے پتہ تھا کہ موتیا اُس کا پیغام سنتے ہی دوڑی چلی آتی۔ بتول دور جاتے مراد کو دیکھتی رہی اُس کے اونچے لمبے سراپے کو لمبے لمبے ڈگ بھرتے اُس کے وجود کو … ہر اچھی چیز کی طرح وہ بھی موتیا کا تھا۔ بتول کے اندر کچھ سلگا تھا۔ سعید ایک لمحہ کے لئے بھی اُسے یاد نہیں آیا تھا اور مراد اب اُسے بھول نہیں رہا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!