Blog

Dana-Pani-Ep-3

“اُس رات بخار کے علا ج کے لئے بھی آپ نے موتیا کو بلوایا تھا؟ ” تاجور مراد کے ساتھ اپنے گاؤں واپس آرہی تھی جب مراد نے رستے میں ٹانگے پر بیٹھے اُس سے پوچھا تھا اور تاجور کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ کہاں کہاں آکر کھڑی ہوجاتی تھی اُس کے اور اُس کے بیٹے کے بیچ۔
“تم سے کس نے کہا؟” تاجور نے اُس سے نظریں ملائے بغیر باہر کھیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“مجھے بے ہوشی میں بھی وہی نظر آئی تھی۔ مجھے لگا میرا وہم تھا۔ “



سیدھے سادھے لہجے میں کہے گئے جملے نے تاجور کو کہیں کا نہیں رہنے دیا تھا۔ موتیا اُس کے بیٹے کے وہموں میں بھی آنے لگی تھی اور وہ اُس کو حقیقت میں چھپانے کے جتن کررہی تھی۔
“چاچا گامو نے بڑا اچھا کیا موتیا کو میڈیکل پڑھارہے ہیں۔ گاؤں کو بڑی ضرورت ہے ڈاکٹر کی۔” مراد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
“یہ تمہارے باپ کا احسان ہے کہ گامو پڑھا رہا ہے بیٹی کو ورنہ میرے بس میں ہوتا تو میں تو کبھی گاؤں کی کسی لڑکی کو لڑکوں کے ساتھ شہر میں نہ پڑھنے دیتی… بے حیائی سی بے حیائی ہے۔”مراد نے حیرت اور بے یقینی سے ماں کو دیکھا۔
“امی ماہ نور بھی تو پڑھ رہی ہے شہر۔” تاجور اُس کے جملے پر جیسے تڑپ اُٹھی تھی۔ وہ اُس کی بھتیجی کا مقابلہ موتیا سے کررہا تھا۔
“ماہ نور اور موتیا کا کیا مقابلہ … تو اُس کی ذات اور اوقات تو دیکھ۔” تاجور خفا ہوئی تھی اور مراد ماں کے جملے پر کچھ اور حیران۔
“یہ ذات اور اوقات کیا ہوتی ہے امی؟” تاجور کو اس سوال کا جواب نہیں آیا یا پھر شاید وہ موتیا کے ذکر سے تنگ آگئی تھی۔ اُس نے یک دم بات بدل دی۔
“تمہیں ماہ نور کیسی لگی؟”مراد اُس کے سوال پر ایک بار پھر حیران ہوا۔
“ماہ نور اچھی ہے… سب کزنز کی طرح آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟ “مراد نے ماں کو کُریدا ۔
اُس کی چھٹی حس نے اُسے کوئی عجیب سا سگنل دیا تھا۔ تاجور بڑے پراسرار انداز میں مسکرائی تھی۔
“بتادوں گی … بتادوں گی… ایسی جلدی بھی کیا ہے ؟”
مراد ماں کے چہرے کو بغور دیکھتا رہا لیکن اُس نے کوئی مزید سوال نہیں کیا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!