Blog

Dana-Pani-Ep-3



وہ سانپ وہیں کھڑا تھا اُسی طرح تن کر اپنا پھن پھیلائے اور اُس کی آنکھیں اُسی خوفناک انداز میں اُس پر جمی ہوئی تھیں اور اُس کی دوشاخہ زبان اُسی طرح لہراتی ہوئی اندر باہر جارہی تھی اور وہ گھاس میں سرکتا سنسناتا پھنکارتا ہوا ایک ہی جگہ کنڈلی مارے بیٹھا تھا اور اپنے وجود کو سمیٹتا اور پھر کھولتا پھر سمیٹتا جارہا تھا پر وہ موتیا کے سامنے ہی موجود تھا اور موتیا اُس پر نظر یں جمائے ہوئے تھی خوف اور دہشت کی کیفیت میں پھر اُس نے سراُٹھا کر سانپ کے پار دیکھا تھا وہاں مراد کھڑا تھا اُس کی طرف ہاتھ بڑھائے یوں جیسے سانپ کے وجود سے بے خبر ہو۔ موتیا نے ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا تھا۔ سانپ پھٹکارا تھا اور اپنی کنڈلی کھولتے ہوئے وہ جیسے ہوا میں اُچھل کر موتیا کی کلائی پر آن گرا تھا۔ وہ چیخی تھی اُس نے موتیا کی کلائی پر کاٹا تھا۔
وہ اُسی طرح چیختی ہوئی اُٹھ کر اپنی چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔ گامو اور اللہ وسائی بھی ہڑبڑا کر نیند سے جاگے تھے اور لپکتے ہوئے اُس کی طرف آئے تھے۔ موتیا عجیب سی کیفیت میں اپنی چارپائی پر پسینے سے شرابور بیٹھی ہوئی تھی۔
“میں صدقے جاؤں کیا ہوا میری دھی سوہنی کو۔” اللہ وسائی نے اُس کی چارپائی پر آتے ہی اُسے خود سے لپٹالیا تھا۔
“اماں آپ نے رات کو سونے سے پہلے دم نہیں کیا مجھ پر اس لئے ڈر گئی میں۔” موتیا نے اللہ وسائی کی گود میں منہ چھپاتے ہوئے کہا تھا۔
“کتنی لاپروا ہے تو اللہ وسائی تجھے اتنا سا کام بھی یاد نہیں رہتا۔”گامو بے اختیار اللہ وسائی پر ناراض ہوا تھا اور اُس نے بُرا منائے بغیر اُس کی ڈانٹ سنی تھی۔
وہ اب منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر موتیا پر پھونکنے لگی ہوئی تھی۔ موتیا نے ماں باپ کو خواب نہیں سنایا تھا پر اُس نے چاند کی روشنی میں جیسے اپنی کلائی دیکھنے کی کوشش کی تھی یوں جیسے وہ وہاں سانپ کے کاٹے کا کوئی نشان ڈھونڈ ھ رہی ہو۔ چاند کی روشنی میں اُس کی دودھیا کلائی بے داغ تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!