Blog

Dana-Pani-Ep-3

“قسم لے لیں چوہدرائن جی… میری بتول نے الف سے لے کر ی تک یہی بات بتائی ہے مجھے… میں نے ایک لفظ ادھر سے اُدھر نہیں کیا۔ “شکوراں نے کان پکڑ کر تاجور سے کہا تھا جو بالکل ساکت بیٹھی اسے دیکھتی جارہی تھی۔
“موتیا نے پہلے ہی دیکھ لیا کہ میرے بیٹے کو سانپ کاٹنے لگا ہے… یہ کیسے ہوسکتا ہے شکوراں تو کیسی باتیں کررہی ہے؟” تاجور نے بالآخر اپنی خاموشی توڑی تھی۔



“میں نے بھی یہی بات کہی تھی بتول سے پر وہ کہتی تھی موتیا بڑے سالوں سے مراد کو خواب میں دیکھتی آرہی ہے اور اُس نے یہ بھی دکھا کہ مراد کے سینے پر دل والی جگہ پر کوئی داغ ہے… چوہدرائن جی ایسا تو نہیں ہے۔” شکوراں نے پتہ نہیں اپنے کون سے شبے کی تصدیق کی تھی اور تاجور پھر چُپ کی چُپ رہ گئی تھی۔
وہ نشان مراد کے سینے پر دل والی جگہ پر نہیں تھا وہ تاجور کے سینے پر تھا اور وہ مراد کے حمل کے دوران بننا اور پھیلنا شروع ہوا تھا پھر جیسے ایک جگہ رُک گیا تھا۔ تاجور نے کئی ٹوٹکے کئے تھے کئی حکیمی اور ڈاکٹری علاج بھی کر چھوڑے تھے پر وہ نشان کسی چھائیں کی طرح عین اُس کے دل والی جگہ پر تھا اور تاجور نے کبھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور اب شکوراں کہہ رہی تھی موتیا سچے خواب دیکھتی تھی اور اس نے مراد کے دل پر داغ دیکھا تھا۔ تاجور عجیب ہی انداز میں بے قرار ہوئی تھی۔
“سن شکوراں اپنی بیٹی کو کہہ دے یہ باتیں کسی سے نہ دہرائے اور نہ ہی موتیا… بتول سے کہہ دو مراد کا نام بھی موتیا کی زبان پر نہ آئے۔” تاجور کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کرنا کیا چاہتی تھی کیا پیغام دلوانا چاہتی تھی۔ شکوراں کو جو بھی سمجھ آیا اُس نے بغیر سوال کے اطاعت کرنے والے انداز میں جی کہہ کے سرہلادیا تھا۔ وہ چلی گئی تھی مگر تاجور کو جیسے جلتے انگاروں پر چھوڑ گئی تھی۔
“یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ خواب میں پہلے ہی سانپ کو مراد کو کاٹتا دیکھ رہی تھی کہیں موتیا خود ہی تو وہ سانپ نہیں لائی تھی جسے اُس نے مراد پر چھوڑ دیا ہو۔” تاجور کو اُس وقت عجیب عجیب وہم ہورہے تھے۔ وہ موتیا کو دھوکہ باز ماننا چاہتی تھی پر مان نہیں پارہی تھی۔
کمرے کا دروازہ بند کرکے اُس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر قمیض کے بٹن کھول کر اپنے بائیں سینے پر وہ داغ دیکھا تھا جسے اُس نے بہت عرصے سے دیکھنا چھوڑ دیا تھا پر جو اب کسی اور کی نظر میں آگیا تھا۔ وہ … وہ اُس کے دل تک کیسے پہنچ گئی تھی کسی نے جیسے تاجور کے کلیجے پر ہاتھ ڈالا تھا۔ اُسے یہ خبر نہیں تھی کہ بالکل اُسی وقت اپنے کمرے میں مراد بھی آئینے کے سامنے قمیض کے بٹن کھولے کھڑ اتھا۔ اُس کا سینہ بے داغ تھا اور وہاں کچھ بھی نہیں تھا مگر وہ بات موتیا کی زبان سے نکلی تھی اور مراد کو وہم میں ڈال گئی تھی۔ اُس نے شکوراں اور تاجور کی ساری باتیں سنی تھیں اور وہ بھی تاجور کی طرح ششدر تھا۔
وہ اُسے کئی سالوں سے خوابوں میں دیکھتی آرہی تھی اور اُس نے اُسے سانپ سے بچایا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی جان گئی تھی کہ وہاں اُسے سانپ کاٹنے والا تھا۔ وہ کنگز کالج میں وکالت پڑھ رہا تھا اور وہ ان انکشافات پر دنگ تھا۔ وہ کیوں اُس لڑکی کی طرف کھینچ رہا تھا۔ جو اُسے کئی سالوں سے خوابوں میں دیکھ رہی تھی اور جو اُس کی جان بچا چکی تھی۔
اور اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑی تاجور کو پتہ چل چکا تھا کہ موتیا کون تھی اور اُسے یہ سب کیسے پتہ چل رہا تھا۔ وہ سب جادو کا کمال تھا کالے جادو کا… وہ اُس کے مراد پر ٹونے کررہی تھی کیونکہ وہ اُس کے بیٹے کو اُس سے چھین لینا چاہتی تھی اُسے موتیا سے عجیب سی نفرت محسوس ہوئی۔
“وہ میری اکلوتی اولاد ہے موتیا … تو چھین کر دکھااُسے اگرچھین سکتی ہے تو!”
اس نے جیسے دل ہی دل میں موتیا کو چیلنج کیا تھا للکارا تھا یہ جانے بغیر کہ موتیا ایک انگلی ہلائے بغیر اُس کے بیٹے کے دل پر قابض ہوچکی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!