Blog

Dana-Pani-Ep-3



“بہت بڑا فیصلہ ہے یہ مراد۔ ہمارے اور اُن کے درمیان بہت فرق ہے۔”
چوہدری شجاع بھی مراد کے مطالبے پر اسی طرح گنگ ہوا تھا جیسے تاجور پیر ابراہیم کی زبان سے سن کر ہوئی تھی اور اُس نے مراد کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
“جو فرق ہے نا ابو وہ یہاں ہے۔” وہ اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھے باپ کو جواباً سمجھانے بیٹھ گیا تھا۔
“میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا مراد تیری شادی کا فیصلہ تیری ماں نے کرنا ہے وہی اقرار یا انکار کرے گی۔” چوہدری شجاع نے یک دم جیسے اپنا فیصلہ سنادیا تھا۔ تاجور گھر پر نہیں تھی اور مراد اُس کی عدم موجودگی کا فائدہ اُٹھا رہا تھا۔
“یہ فیصلہ امی نے نہیں کرنا ابو… یہ میری زندگی ہے۔ یہ فیصلہ مجھے کرنا ہے۔” اُس نے باپ سے دو ٹوک انداز میں کہا تھا اور اندر آتی تاجور کے سینے پر جیسے آری چلا دی تھی۔
“شکوراں شکوراں مٹھائی لے کر آ… چوہدری صاحب اور مراد کا منہ میٹھا کرا۔”
تاجور نے اندر آتے ہوئے یوں ظاہر کیا تھا جیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔ وہ ہنسی کھلکھلاتی ہوئی اندر آئی تھی اور اُس کے اندر آنے پر مراد اور چوہدری شجاع دونوں یک دم چپ ہوگئے تھے۔ شکوراں تب تک لپکتی ہوئی مٹھائی تھالی میں رکھ کر لے آئی تھی۔
“لاؤ میں خود ہی منہ میٹھا کرواتی ہوں دونوں کا۔” تاجور نے اُسے دیکھتے ہی کہا تھا اور پھر ٹھالی سے ایک لڈو اُٹھا کر اس نے مراد کو کھلانے کی کوشش کی تھی۔ اُس نے ماں کا ہاتھ پکڑلیا تھا۔
“کس چیز کا لڈو ہے یہ؟” تاجور نے بڑے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا۔
“تیری بات طے کر آئی ہوں ماہ نور کے ساتھ میں اُسی کی مٹھائی ہے۔ چل منہ میٹھا کر۔” اُس نے اس طرح مُراد کو بتایا تھا جیسے وہ کوئی بے حد غیر اہم اور روزمرہ کا معاملہ تھا۔
“یہ نہ کریں امی۔” مراد ایک قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔
“کر آئی اب تو۔” تاجور نے اُسی انداز میں بے حد اطمینان سے کہا تھا۔
“تم جاؤ یہاں سے۔”
چوہدری شجاع نے یک دم شکوراں کو وہاں سے بھیج دیا تھا۔ وہ نوکروں کے سامنے کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا۔ تاجور اب موتی چور کا وہ لڈو خود کھانے لگی تھی۔ شکوراں سرجھکائے ادھر ادھر دیکھے بغیر وہ ٹھالی وہیں رکھ کے وہاںسے نکل گئی تھی۔
“امی موتیا کے علاوہ کسی دوسرے کو بیاہ کر نہیں لاؤں گا میں۔” مراد نے بے حد اُکھڑے ہوئے لہجے میں ماں سے کہا تھا۔
“مجھے نانا ابا نے اجازت دی ہے۔ موتیا سے شادی کی۔” تاجور اُسے دیکھتی ہوئی لڈو کھاتی رہی جب وہ چپ ہوا تو اُس نے کہا۔
“ماہ نور کے علاوہ اس حویلی میں کوئی آئے گی تو اس بار تیری ماں نے لڈو کھایا ہے ۔ اگلی بار زہر کھائے گی۔” تاجور کا چہرہ بے تاثر تھا پر آواز اور آنکھوں میں آگ تھی ۔ مراد اور شجاع دونوں میں سے کوئی بھی کچھ بھی بول نہیں سکا تھا۔ مراد صرف بے یقینی کے عالم میں اُس ماں کو دیکھتا رہا جو اُس پر ہر وقت صدقے اور قربان جاتی تھی اور اب… وہ اُسے مرنے کی دھمکی دے رہی تھی۔ اُس کی خاموشی پر تاجور نے فاتحانہ انداز میں اُسے دیکھا تھا اور پھر کمرے سے نکل گئی تھی۔ مراد بُت کی طرح وہاں کھڑا کا کھڑا رہ گیا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!