Blog

Dana-Pani-Ep-3



پیر ابراہیم نے تاجور کو بے حد حیرانی سے دیکھاتھا۔ وہ دن دہاڑے بغیر اطلاع کئے اُن کے گھر آئی تھی اور وہ بھی اُن کے پاس ڈیرے پر۔
“خیریت تو ہے تاجور؟” انہوں نے اُس سے پوچھا تھا۔
“ابا جان میں مراد اور ماہ نور کا نکاح کرنا چاہتی ہوں ۔ یہ شگن کا سامان لائی ہوں آج ہی بات پکی کرنے کے لئے پھر باقی سب کچھ بعد میں طے کرلیں گے ۔” تاجور کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی تھی۔ پیر ابراہیم تسبیح پھیرتے اُس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر انہوں نے پوچھا ۔
“مراد سے پوچھ لیا ہے تم نے؟”
تاجور اُن کے سوال پر ایک لمحہ کے لئے ٹھٹکی پھر اُس نے بڑے اعتماد سے کہا۔
” اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ میرا بیٹا ہے ماں جہاں چاہے اُس کی زندگی کا فیصلہ کرسکتی ہے۔”
پیر ابراہیم نے نفی میں سرہلاتے ہوئے اُس سے کہا۔
“کچھ فیصلوں کا حق رب نے ماں باپ کو بھی نہیں دیا۔ اُس کا نکاح ہونا ہے اُس کی مرضی سے ہونا چاہیے۔” تاجور کے ماتھے پر بل آئے پھر اُس نے کہا۔
“وہ میری فرمانبردار اولاد ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے اُس کی مرضی سے ہورہا ہے۔” پیر ابراہیم اُس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
“وہ کل آیا تھا میرے پاس… موتیا سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ اور اُس نے مجھے کہا ہے کہ میں تم سے بات کروں اور میں نے اُسے زبان دے دی ہے۔” پیر ابراہیم نے اُسی ٹھنڈی پرسکون لہجے میں بیٹی سے کہا تھا۔ اور تاجور کے سر پر جیسے بجلی گری تھی۔
“آپ نے کیسے اُسے اجازت دے دی مجھ سے پوچھے بغیر بابا جان؟” وہ تڑپی تھی۔
“تم بندباندھ سکتی ہو تاجور تو باندھ لو میں نہیں باندھ سکتا۔ جو چیزیں مقدر میں ہوں اُن کے سامنے ضد کرکے کھڑے رہنے سے بڑا نقصان ہوجاتا ہے۔”
“مقدر کیا شے ہے بابا جان… ؟ کیا شے ہے؟ یہ ہے مقدر کہ ایک کمی کمین سے میری نسل چلے جس کی ماں سیرانی باپ پیر شوہرجدّی پشتی جاگیردار… میں اس مقدر کو نہیں مانتی… میں نے مراد کو بڑی منتوں مرادوں سے لیا ہے اب اسے موتیا کی جھولی میں نیاز اور خیرات کی طرح نہیں ڈال سکتی ۔ ”
تاجور نے باپ سے کبھی اس طرح تن کر بات نہیں کی تھی جس طرح اُس دن کی تھی۔ وہ اُسی طرح تسبیح کے دانے گراتے اُسے دیکھتے رہے۔
“پھر کیا کروگی تم تاجور… کیسے روکوگی اُسے؟”
“آپ ایک ماں سے پوچھ رہے ہیں کہ اولاد کو وہ کیسے روکے گی۔”تاجور طنزیہ ہنسی تھی۔
“کوئی نقصان نہ کر بیٹھنا تاجور کوئی نقصان نہ کر بیٹھنا۔” پیر ابراہیم نے اُسے بڑے تحمل سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
“اپنا نہیں کروں گی بابا جان… اور کسی دوسرے کا ہوجائے تو تاجور کو اُس کی پرواہ نہیں۔” تاجور نے دوٹوک انداز میں باپ کے سامنے جیسے اعلان کیا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!