Blog

Dana-Pani-Ep-3



تاجور تسبیح لئے حویلی کے برآمدے میں بیٹھی ہوئی تھی جب مراد گھر آیا تھا۔
“ارے آپ اب تک باہر بیٹھی ہیں۔ مچھر کاٹ رہا ہوگا۔” اُس نے آتے ہی ماں سے بڑے لاڈ سے کہا تھا۔
“تم نے بتایا ہی نہیں تھا کہ اتنی دیر ہوجائے گی تمہیں باہر۔”تاجور نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
“ہاں میں نانا جان سے ملنے چلا گیا تھا تو بس پھر انہوں نے ہی رات کے کھانے پر روک لیا۔ ”
مراد ماں کو بتاتا ہوا اندر اپنے کمرے کی طرف آیا۔ تاجور کچھ حیران سی ہوکر پیچھے آئی تھی۔
“ابا جان کی طرف گئے تھے تو مجھے بتا تو جاتے۔” مراد نے جو اب میں ماں کو صرف مسکرا کر دیکھا تھا وہ اب الماری سے اپنے کپڑے نکال رہاتھا۔
“گامو کے گھر پھل تم نے بھیجے تھے؟” تاجور نے بہت دیر اُس سوال کو دبا نہیں سکی تھی۔ جسے اپنے اندر لئے وہ گھوم رہی تھی۔
مراد کپڑے نکالتے ہوئے ٹھٹکاتھا پھر اُس نے پلٹ کر ماں کو دیکھا اور بڑے ہموار لہجے میں کہا۔
“جی امی… انہوں نے میری جان بچائی تھی مجھے لگا مجھے بھی تشکر اور احسان مندی کے اظہار کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔”
“تو نے اگر کچھ بھیجنا بھی تھا نا تو مجھ سے پوچھ کر بھیجتا۔” تاجور اُس کی بات کے جواب میں بس یہی کہہ سکی تھی۔
“ٹھیک ہے اگلی بار جب کچھ بھیجوں گا تو آپ سے پوچھ کر بھیجوں گا۔”مراد نے مسکرا کر ماں کو دیکھ کر بڑے صلح جو انداز میں کہا تھا اور تاجور کھٹک گئی تھی۔
“اگلی بار کیوں بھیجے گا تو کچھ بھی اُنہیں؟” اُس نے مراد سے کہا تھا۔
“تحفہ بھیجنے سے محبت بڑھتی ہے۔”مراد نے کہا تھا اور تاجور بُری طرح تلملا اُٹھی تھی۔
“کس سے محبت بڑھانی ہے تو نے موتیا سے؟” اُس نے مراد سے سیدھا ہی پوچھ لیا تھا۔ مراد کو ماں کے غصے کی سمجھ نہیں آئی وہ بس سنجیدہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
“یہ جو کمی کمینوں کی لڑکیاں ہوتی ہیں نا یہ بڑی تیز ہوتی ہیں اور موتیا کو تو ویسے ہی شہر کی ہوا لگی ہوئی ہے وہاں پڑھ رہی ہے وہ لڑکوں کے ساتھ۔” تاجور نے اب بغیر کسی لگی لپٹی کے اُس سے کہا تھا۔
“اماں اس طرح تو میں بھی ساری زندگی شہر میں پڑھا ہوں اور اب انگلینڈ میں لڑکیوں کے ساتھ پڑھ رہا ہوں تو پھر تو میں بھی بڑا تیز ہوا نا۔” اُس نے ماں سے سادہ لیکن بڑے صاف انداز میں کہا تھا۔ تاجور لاجواب ہوئی تھی اور کچھ اور جھنجھلائی تھی۔
“تو اب ماں سے بحث کرے گا دوسروں کے لئے۔”
“ٹھیک ہے بالکل بھی نہیں کرتا بحث چلیں آپ بھی سوجائیں میں بھی سوتا ہوں صبح کرلیں گے بات… آپ ویسے بھی تھکی ہوئی لگ رہی ہیں مجھے۔” مراد نے ماں کے پاس آکر بڑے پیار سے اُسے ساتھ لگا کر بچوں کی طرح تھپکتے ہوئے کہا تھا۔ تاجور کا غصہ کچھ ٹھنڈا پڑا۔ مراد سے وہ خفا رہ ہی نہیں سکتی تھی۔
“مجھے تم سے تمہاری شادی کے بارے میں بات کرنی ہے۔” اُس نے بالآخر اعلان کرنے والے انداز میں مراد سے کہا تھا اور حیران کن طور پر مراد نے جواباً آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے اُس سے کہا تھا۔
“مجھے بھی آپ سے اسی سلسلے میں بات کرنی ہے۔”تاجور کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی اُس کا دل بڑی زور سے دھڑکا تھا لیکن جیسے اُس نے دل کو سنبھالا تھا۔
“تم نے کیا بات کرنی ہے؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ مراد ہنسا تھا۔
“نہیں امی اس وقت بات نہیں کریں گے کل کریں گے اس وقت ہم دونوں کو نیند آرہی ہے۔”
اُس نے ماں کو بڑی محبت کے ساتھ جیسے موضوع سے ہٹانے کی کوشش کی تھی ۔ تاجور کچھ بھی مزید کہے بغیر اُس کے کمرے سے آگئی تھی پر اپنے دل اور کندھوں پر پہاڑ جیسا بوجھ لے کر آئی تھی اور سر پر اندیشوں اور واہموں کی گٹھڑی… اُسے تو مراد سے ماہ نور کی بات کرنی تھی پر مراد کو اُس سے کس کی بات کرنی تھی؟ اُس کا ذہن ایک ہی خیال میں الجھا ہوا تھا۔
“کہیں موتیا… ”
اُسے ایک لمحہ کے لئے خیال آیا اور اُس نے اس خیال کو اُسی لمحے جیسے دونوں ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر ختم کیا۔ باہر برآمدے میں کھڑے ہوکر صحن میں تھوکا بھی۔ موتیا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب تھی تاجور کے لئے کہ وہ اُس کی دہشت میں اُس پر تھوک رہی تھی یوں جیسے اُس کے شر اور بُرائی سے اپنا دامن بچائے رکھنا چاہتی ہو۔
“خوامخواہ ہی وہم کرنے بیٹھ گئی ہوں… جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں مراد کو موتیا سے ملے… اب چار دنوں میں کیا مجھ سے اُس کے لئے بات کرنے بیٹھ جائے گا۔ تو بھی وہمی ہوگئی ہے تاجور خوامخواہ میں ہی۔ کچھ نہیں کہنا ہوگا مراد نے اور کہے گا بھی تو دیکھی جائے گی۔ میں ماں ہوں مرضی تو میری ہی چلنی ہے اور اس حویلی میں ماہ نور کے علاوہ کسی اور نے بہو بن کر آنا ہی نہیں ہے۔”
تاجور نے اُس رات دل ہی دل میں جیسے مراد کا نصیب لکھ کر قلم توڑ دیا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!