Blog

Dana-Pani-Ep-3

“ادھر آ گامو١ میرے بیٹے کی جان بچائی ہے تمہاری بیٹی اور تم نے… بتا اس کے بدلے چوہدری شجاع کیا کرے تمہارے لئے؟” چوہدری شجاع نے گامو کو اُسی دن ڈیرے پر بلایا تھا ۔ اُسے مراد سے پیر ابراہیم کے ڈیرے پر ہونے والے واقعے کا پتہ چل گیا تھا۔
“نہ نہ چوہدری جی آپ تو شرمندہ کررہے ہیں۔ اللہ آپ کا اور آپ کے بیٹے کا سایہ ہمارے سر پر قائم رکھے۔ آپ کی چوہدراہٹ بنائے رکھے گاموا ور اُس کی بیٹی کی کیا اوقات کہ آپ سے احسان کا بدلہ لے۔ ” گامو نے خجل ہوکر چوہدری شجاع کے سامنے ہاتھ باندھ دیئے تھے۔ وہ واقعی شرمندہ ہورہا تھا۔



“پر اس احسان کا بدلہ ضرور چکاؤں گا میں گامو اور اپنی حیثیت کے مطابق چکاؤں گا۔ یاد رکھنا یہ احسان میرے سر پر تیرا قرض ہے۔ جب بھی جس وقت بھی لینا ہو آجانا میرے پاس۔ چوہدری شجاع اپنی حیثیت سے بڑھ کر دے گا تمہیں۔” چوہدری شجاع نے اپنے مردان خانے میں گاؤں کے مردوں کے سامنے گامو سے جو وعدہ کیا تھا وہ دل سے کیا تھا ۔ پر گامو نے رب سے دُعا کی تھی کہ اُس پر کبھی وہ وقت نہ آئے کہ وہ چوہدری شجاع سے اس احسان کا صلہ مانگنے پر مجبور ہوجائے ۔
اندر بیٹھی تاجور تک مردان خانے میں دیئے جانے والے اس وعدے کی باز گشت ملازموں کے ذریعے پہنچ گئی تھی اور وہ جیسے اور ناخوش ہوئی تھی۔ اُس کا خیال تھا جتنی عزت افزائی گامو کی پیر ابراہیم کے گھر پر ہوگئی وہ کافی تھی۔ اب بار بار اُس واقعے کو دہرانے اور گامو اور موتیا کو اس طرح ہیرو بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔
“چوہدری صاحب کیا ضرورت تھی گامو کے ساتھ اس طرح کے وعدے وعید کرنے کے؟ آخر ایسا بھی کون سا کارنامہ کردیا ہے اُس نے… سانپ ہی تو مارا ہے شیر تو نہیں مارا۔ “تاجور نے شجاع کے اندر آتے ہی اُس سے بڑے تیکھے انداز میں کہا تھا۔
“اس طرح بات مت کرو تاجور… کوبرا تھا کاٹ لیتا تو گاؤں میں تو کوئی علاج کرنے والا تک نہیں تھا۔ شہر لے جاتے جاتے پتہ نہیں کیا ہوجاتا۔ میرا دل تو ابھی پھر لرز رہا ہے۔ تمہارے دل کو کچھ نہیں ہورہا۔” چوہدری شجاع نے جواباً اُس کو کچھ گھر کنے والے انداز میں کہا تھا۔
“اُس پر ماں نے دُعائیں پھونکی ہوئی تھیں۔ اپنے نانا کے باغ میں کھڑا تھا وہ …جہاں سے فیض کے علاوہ کچھ نہیں ملتا انسانوں کو… تو یہ کیسے ممکن تھا مراد کو کچھ ہوجاتا۔ ” تاجور نے بڑے گھمنڈ سے کہا تھا۔
“شکر کرو اللہ نے بُرے وقت سے بچالیا۔ بُری گھڑی دستک دے کے نہیں آتی تاجور اور ہر دُعا کی دیوار پھاندلیتی ہے وہ ۔ تو بس شکر ادا کرو صدقہ دو مراد کا اور احسان مند رہو اُن لوگوں کی جو وسیلہ بن گئے مراد کو بچانے کے لئے۔ ”
چوہدری شجاع نے اُسے ہمیشہ کی طرح سمجھایا تھا ۔ تاجور کو چوہدری شجاع کا سمجھانا بُرا لگا۔
“نہ چوہدری صاحب ایسی کون سی بات کہہ دی ہے تاجور نے کہ مجھے ہی سمجھانے بیٹھ گئے ہیں۔ بیٹا آپ کا الگ کلمہ پڑھ رہا ہے گامو اور موتیا کا۔ آپ ہیں تو آپ الگ سے وعدے دے رہے ہیں گامو کو ۔ اور گامو نے کل کو کوئی زمین کا کِلّا مانگ لیا تو پھر نہ کہنا … پھر دے دینا اُسے۔” اُس نے بے حد ناگواری سے کہا تھا۔
“کلّے مانگنے والا ہوتا گامو تو پھر تو مسئلہ ہی کیا تھا تاجور… چیزیں دے کے اُتار دیتا اُس کا احسان… وہ درویش سادہ لوح ہے اللہ کا بند ہ ہے … دُنیا دارکہا ں ہے”
تاجور کو چوہدری شجاع کی یہ تعریفیں اور کھلیں مگر بحث کرنے کی بجائے وہ اس بار اُٹھ کے باہر نکل گئی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!