Blog

Dana-Pani-Ep-3



وہ کنویں پر ہی ملے تھے پر کنویں کے پچھلی طرف آم کے باغ میں جہاں موتیا اُسی کے انتظار میں ٹہلتی ہوئی چلی گئی تھی ۔ مراد گھوڑے پر آیا تھا۔ کچے راستے پر گھوڑا دوڑاتے گرد اُڑاتے اور اُس نے موتیا کو بہت دور سے دیکھ لیا تھا اور خود موتیا نے بھی۔ وہ عجیب سحر زدہ سی اُسے دور سے آتا دیکھتی رہی تھی وہ گھوڑا یوں دوڑارہا تھا جیسے وہ کچا راستہ پکی پگڈنڈی ہو۔ موتیا سے کچھ دور ہی اُس نے گھوڑے کی رفتار کو آہستہ کرنا شروع کردیا تھا۔
گھوڑا سرپٹ بھاگتے ہوئے ہلکی دولکی چال پر آگیا تھا اور پھر آموں کے باغ کی حد بندی کے ساتھ ساتھ چلنے لگاتھا۔ وہ بھی جیسے اپنے سوار کی طرح موتیا پر ہی نظریں جمائے ہوئے تھا۔ موتیا کے قریب آنے پر مراد نے باگ کھینچ کر گھوڑے کو روکا پھر باگ کو گرہ لگا کر چھوڑ تے ہوئے وہ گھوڑے سے نیچے کودا تھا اور پھر موتیا کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ وہ دو آموں کے درختوں کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔
“تو تم مجھے اپنے خوابوں میں دیکھ رہی ہو اور کتنے سالوں سے؟”
مراد نے نہ سلام کیا تھا نہ کوئی تمہید باندھی تھی۔ وہ اس لڑکی سے صاف صاف بات کرنا چاہتا تھا ۔ اِدھر اُدھر کی باتیں نہیں۔
“پانچ سال سے۔” موتیا نے اُس پر نظریں جمائے ہوئے کہا تھا اور پھر ہاتھ بڑھا دیا تھا۔
مراد نے اُس کے ہاتھ میں پکڑا موتیا کا ہار دیکھا تھا جو اُس کے ہاتھ کا پرویا ہوا تھا۔ مراد نے اُس کے ہاتھ سے وہ ہار نہیں لیا تھا اُس نے اُس ہار کو اُسی کلائی میں بہت نرمی سے لپیٹنا شروع کردیا تھا۔ جس میں موتیا نے وہ تھاما ہوا تھا۔
“سنو تم سے لمبی بات کرنے نہیں آیا نہ جھوٹے قول اقرار کرنے آیا ہوں ۔ تم مراد کے دل میں تیر کی طرح کھب گئی ہو… نکالنے سے بھی نہیں نکل رہی اور نکالنا چاہتا بھی نہیں تمہیں۔ تو بس تم سے یہی کہنے آیا ہوں کہ تم میری ہو ۔ اپنے ماں باپ بھیجوں گا تمہیں اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کے لئے اور دیر نہیں کروں گا بس تم میری رہنا کسی اور کے ہاتھ میں یہ ہاتھ نہ دینا۔ ورنہ میں تمہیں تو کچھ نہیں کہوں گا اُسے جان سے ماردوں گا۔” وہ عجیب قول اقرار تھا جس پر موتیا ہنسی تھی اور اُس نے مراد سے کہا تھا۔
“تمہارے علاوہ تو میرے خوابوں میں بھی کوئی نہیں آتا مراد… اپنا ہاتھ کیسے کسی کو تھماسکتی ہوں۔”
وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے اور چپ تھے اور ساکت تھے اور سانس بھی نہیں لے رہے تھے۔ اور اس سب کی ضرورت بھی کیا تھی پھر تو زندہ رہنے کے لئے کہاں جاتا تھا سب دونوں تو ایک دوسرے پر مرگئے تھے۔
اُس کے نین غزالی دلبر
اُس کے گال گلابی
اُس کے روپ پہ ساون برسے
بہ جائے مرمرکے
اُس کا حُسن کہانی جیسا
کاغذ کتنے بھردے
اُس کی مُشک بہاروں جیسی
صحرا جنت کردے
اُس کے بول ہیں میٹھا جھرنا
اُس کی چپ میں چھاؤں
وہ حُسن پری
وہ روپ متی
وہ میرے جل کی ناؤ
وہ اُس کا ہاتھ پکڑے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُس کے لئے وہ گنگنا رہا تھا جو اُس نے کبھی کسی لڑکی کے لئے نہیں گنگنایا تھا۔ اور وہ اُسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اُس نے اپنے حُسن کی تعریفیں پتہ نہیں کس کس سے سنی تھیں پر جو اُس دن اُس لمحے اُس نے مراد سے سنا تھا وہ بس امر ہوگیا تھا۔
وہ دونوں ویسے ہی کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے جارہے تھے اور پتہ نہیں کب تک ایک دوسرے کو دیکھتے ہی چلے جاتے اگر آسمان پر بادل اُن کے ساتھ شرارت کا نہ سوچتا۔ وہ بارش کی بوندیں تھیں جنہوں نے اُن پر ٹپکنا شروع کیا تھا اور اُن کا انہماک توڑنے میں ناکام رہی تھیں اور پھر وہ موسلا دھا ر بار ش تھی جو اُن دونوں پر محبت کی طرح برسنے کے لئے اُتری تھی۔ اور یہ بتول تھی جو ایک درخت کی اوٹ سے بھیگتے اور بھاگتے ہوئے موتیا کی طرف آئی تھی اور اُس نے موتیا کا ہاتھ پکڑکر کھینچتے ہوئے جیسے اُسے ہوش میں لے آنے کی کوشش کی تھی۔
“بارش ہو رہی ہے موتیا۔ بھیگ رہی ہو تم… بس چلو اب چلتے ہیں گاؤں کے لوگ آرہے ہیں ابھی اسی طرف۔”
وہ برستی بارش میں اُسے کھینچتے ہوئے وہاں سے لے گئی تھی پر مراد وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔ اُس نے کچی زمین میں اُس کی چپل کے نشان دیکھے تھے جو بھیگی زمین پر یوں نقش تھے جیسے مراد کے دل پر موتیا کا چہرہ۔
وہ برستی بارش میں بتول کے ساتھ دور جاتے ہوئے بھی مڑ مڑ کر اس کو دیکھ رہی تھی اور وہ مڑا ہی نہیں تھا ۔ وہ تب تک وہیں کھڑا اُسے جاتا دیکھتا رہا جب تک وہ نظرآتی رہی تھی۔ پھر جب وہ نظر آنا بند ہوگئی تو مراد کو پہلی دفعہ اُس برستی بارش کا احساس ہوا جس میں اب اُس کے کپڑے جیسے نچڑ رہے تھے ۔ اُسے اب وہاں سے جانا تھا پر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ جائے تو کہاں جائے۔ دل جہاں جانا چاہتا تھا وہاں کا راستہ ابھی اُسے بتانا تھا اور دماغ … وہ اب کچھ کہہ ہی نہیں رہا تھا اُس نے دل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے ۔ وہ مراد کا دل تھا۔ جو موتیا کے سامنے ہارا تھا اُس نے ۔ تو اُس کا دماغ کیسے غلط کہہ دیتا اُسے کیا تاویل دیتا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!