Blog

Dana-Pani-Ep-3



“تجھے کیا ہوگیا بتول تو سوتی کیوں نہیں ہے کیوں بیٹھی ہوئی ہے اب تک؟” شکوراں نے اپنی چارپائی پر کروٹ لیتے ہوئے بتول کو گھٹنے سکیڑے چارپائی کے بیچوں بیچ بیٹھے دیکھ کر گُھر کا تھا۔
“نیند نہیں آرہی اماں ۔” بتول نے جواباً ماں سے کہا تھا۔
“کیوں نیند کو کیا ہوا ؟”
“گُھن لگ گیا نیند کو۔” بتول نے عجیب سے انداز میں ماں سے کہا تھا۔ اُس نے حیران ہوکر بیٹی کا چہرہ غور سے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔
“گُھن تو دانوں کو لگتا ہے تیری نیند کو کیسے لگ گیا؟” بتول نے ماں کی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ کچھ دیر اُسی طرح چپ چاپ بیٹھی رہی پھر اُس نے گردن موڑ کر ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
‘”اماں چوہدری مراد موتیا سے ملا ہے۔” شکوراں نے کروٹ اُس کی طرف لیتے ہوئے کہا۔
“چل بکواس نہ کربتول۔”
“میں بکواس کیوں کروں گی اماں میں تو سچ سچ بتا رہی ہوں تجھے۔ چوہدری مراد مل کر آیا ہے موتیا سے اور اُسے کہہ کر آیا ہے کہ اُس کے لئے رشتہ بھیجے گا۔” شکوراں ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گئی اور ہڑبڑاتے ہوئے ہاتھ ملنے لگی۔
“ہائے میں مرجاواں یہ کیا خبر سُنا دی ہے مجھے رات کے اس پہر۔ چوہدرائن جی کو پتہ چلا تو وہ تو کھڑے کھڑے مرجائیں یہ سن کر۔ وہ اور گامو ماشکی کے گھر رشتہ لینے جائیں۔ تو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ چوہدریوں کے گھر میں سیندھ لگنے لگی ہے کمی کمینوں کے ہاتھوں… اور بھلا شکوراں ایسے ہونے دے گی۔” شکوراں جیسے اپنی چارپائی پر بیٹھی ہاتھ ملتے ہوئے تڑپ رہی تھی اور بتول اُسے دیکھتی جارہی تھی۔
“اماں چوہدرائن کو کہہ مراد بچاسکتی ہے تو بچا لے ۔”
بتول نے ماں سے عجیب سے لہجے میں کہا تھا اور خود اُس کو اُس وقت سمجھ میں آیاتھا کہ اُس نے ٹھیک کیا تھا یا غلط… وہ نمک حلالی کرتی یا دوستی نبھاتی… پر بات نہ نمک حلالی کی تھی نہ دوستی کی… دل کا ڈونگا کھوہ بھی اُسے آوازیں لگا لگا کر بتارہا تھا۔
“تو جلتی ہے بتول … تو جلتی ہے۔ اور جو آگ تجھے لگی ہے نا اُسے کسی کنویں کا پانی بھی ٹھنڈا نہیں کرسکتا۔” بتول نے اپنے کان بند کرلئے تھے ۔ آوازوں کا کیا ہے وہ تو آتی رہتی ہیں اُنہیں بھلا کون سنتا ہے۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!