“آپ کا بہت بہت شکریہ چوہدری صاحب آپ نے پھلوں کے اتنے ٹوکرے میرے گھر موتیا کے لئے بھیج دیئے۔ ہم تینوں نے خوب رج رج کے پھل کھایا ہے اور آس پڑوس والوں کو بھی بانٹا ہے۔ پھر بھی ایسی برکت پڑی ہے اُن پھلوں میں کہ ختم ہی نہیں ہورہے۔”
گامو نے اگلے دن چوہدری شجاع کے گھر جاکر اُس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ اور چوہدری شجاع کچھ اُلجھ گیا تھا۔
“میں نے تو نہیں پھل بھیجا چوہدرائن نے بھیجا ہوگا تم نے اور تمہاری بیٹی نے کام بھی تو ایسا بڑا کیا ہے گامو۔” چوہدری شجاع نے اُسے کہا تھا اور پھر ساتھ ہی جیسے ایک بار پھر اُس کے مشکور ہوئے تھے۔ گامو سر جھکا کر رہ گیا تھا۔
اُس دن گھر آکر خوشگوار حیرت میں چوہدری شجاع تاجور سے اُن پھلوں کے بارے میں پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔ وہ گامو اور اللہ وسائی کے لئے تاجور کی ناپسندیدگی سے واقف تھا اور اُس کے لئے یہ حیرانی کی بات تھی کہ تاجور اُن کے گھر پھل بھیجتی اور وہ بھی ٹوکروں کے ٹوکرے۔
“میں کیوں بھیجوں گی پھلوں کے ٹوکرے گامو کے گھر؟” تاجور بھی چوہدری شجاع کے استفسار پر حیران ہوئی تھی۔
“تو ہوسکتا ہے تمہارے والد صاحب نے بھجوائے ہوں۔” شجاع کو اُس کے جواب نے حیران کیا تھا اور پھر اُسے پیر ابراہیم کا خیال آیا تھا۔
“ابا جان نے کچھ بھیجنا ہوتا تو مجھے بھیجتے اور ساتھ پیغام دے دیتے کہ یہ اُن کے چاہنے والوں کو دے دوں۔ یہ تھوڑی کرتے کہ میرے گاؤں کے کسی بھی شخص کو مجھے بتائے بغیر پھل بھیجنا شروع کردیتے۔” تاجور اُلجھی ہوئی تھی مگر اس الجھن میں بھی وہ جیسے پھل بھیجنے والے کو ڈھونڈ نے لگی ہوئی تھی اور پھر جیسے ایک جھماکے کے ساتھ اُس کے ذہن کی سکرین پرمراد کاچہرہ چمکا تھا۔
“مجھے پتہ ہے کس نے بھیجا ہے پھل۔” تاجور بے اختیار بڑبڑائی تھی۔
اُسے مراد پر شبہ نہیں تھا، یقین تھا کہ موتیا کو یہ پھل بھیجنے والا وہی ہوسکتا تھا۔ اور اُس کا دل ڈوبا تھا۔ وہ مراد کی ماں سے پہلی چوری تھی اور تاجور جیسے بل کھا کر رہ گئی تھی۔ وہ وہاں سے لپکتی ہوئی حویلی کے باورچی خانے میں گئی تھی جہاں شکوراں کام کررہی تھی۔
“شکوراں صبح تھتھی سے کہنا موتیا کو بھیجے دانے صاف کرنے۔” اُس نے اندر داخل ہوئے ہی بڑی درشتگی سے شکوراں سے کہا تھا جو لسی بلوتے ہوئے تاجور کے اس طرح وہاں آنے پر کچھ ٹھٹک کررُکی تھی۔
“وہ موتیا کو تو کبھی نہیں بھیجتی تھتھی … آپ کو پتہ تو ہے۔” تاجور نے اُس کی بات بیچ میں ہی کاٹی تھی۔
“صبح موتیا ہی آئے گی ہر صورت کہہ دینا تھتھی کو ورنہ دوبارہ مجھے شکل نہ دکھائے وہ۔”
تاجور نے دوٹوک انداز میں کہا تھا اور پھر وہاں سے چلی گئی تھی اور شکوراں کی سمجھ میں نہیں آیا تھا تاجور کو بیٹھے بٹھائے ہوا کیا تھا۔ ابھی تو پورا گاؤں گامو اور اُس کی بیٹی کی دلیری کے لئے مدح سرا تھا جس نے چوہدری شجاع کی نسل بچادی تھی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے دوبارہ لسی بلونے لگی تھی۔ اتنے سال کے ساتھ کے بعد بھی اُسے تاجور کبھی سمجھ نہیں آئی تھی اور تاجور یوں آسانی سے سمجھ آجاتی تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہ رہتا۔
٭…٭…٭