صحن میں عورتوں کے ساتھ بیٹھی دانے صاف کرتی موتیا نے سی کہہ کر بے اختیار اپنی ایک اُنگلی پکڑلی تھی۔ اُسے بھوسے کا کوئی تیلا دانے صاف کرتے ہوئے انگلی کی پور میں سوئی کی طرح چھبا تھا اور پلک جھپکتے میں اُس کی انگلی لہولہان ہوگئی تھی۔
“باہ… تیری انگلیاں تو اتنی نازک ہیں کہ بھوسے کے تیلوں سے بھی زخمی ہورہی ہیں۔”
وہاں بیٹھی عورتوں میں سے کسی نے مذاق کرنے والے انداز میں موتیا سے کہا تھا جواب دوپٹے کے پلوسے اپنی انگلی کی پور سے نکلتا خون بند کرنے کی کوشش کررہی تھی اور اس میں ناکام ہورہی تھی اور پھر کوئی اُس کے پاس جھک کر زمین پر بیٹھ کر اُس کا ہاتھ پکڑ اتھا اور ایک رومال اُس کی اُنگلی کے گرد لپیٹ دیا تھا۔ دانے چنتی عورتیں جیسے لمحہ بھر کے لئے دانے چننا بھول گئی تھیں۔
“تم سے کس نے کہا تھا کہ دانے صاف کرنے کے لئے حویلی آؤ۔ آئندہ نہیں آؤگی تم یہاں۔”
مراد نے باآواز بلند موتیا سے کہا تھا۔ برآمدے سے صحن میں آتی تاجور نے کسی برف کے بُت کی طرح یہ منظر دیکھا تھا ۔ پورے گاؤں کی عورتوں کے درمیان مراد موتیا کے ہاتھ پر اپنا رومال لپیٹ کر اُسے اس حویلی میں دانے صاف کرنے کے لئے آنے سے منع کررہا تھا اور وہ بھی ببانگ دُہل۔ تاجور برف کا بُت نہ بنتی تو کیا آگ کا انگارہ بنتی۔
“چوہدرائن جی آپ کو یہی بتانا چاہ رہی تھی صبح سے۔ چوہدری مراد موتیا کو کنویں پر بُلا کر ملے ہیں اُن سے۔ قول قرار ہوئے ہیں دونوں کے بیچ۔ چوہدری مراد نے موتیا سے کہا ہے کہ وہ رشتہ لے کر آئیں گے اگلی بار موتیا کے گھر۔” تاجور کے عقب میں کھڑی شکوراں نے سرگوشی میں تاجور کے کانوں میں جیسے پگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلا تھا۔ صحن کے بیچوں بیچ مراد موتیا سے کہہ رہا تھا۔
“تم جاؤ یہاں سے۔”
موتیا نے مراد کو دیکھا پھر برآمدے میں کھڑی تاجور کو پھر گاؤں کی عورتوں کو پھر وہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہیں کھڑے کھڑے اُس نے دور سے ہی تاجور کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا تھا اور وہ پلٹ گئی تھی۔ تاجور نے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ اُس نے مراد کو دیکھا تھا جو موتیا کو تب تک جاتا دیکھتا رہا تھا جب تک اُس نے حویلی کی چوکھٹ پار نہیں کرلی تھی۔ تاجور کو لگا دن دہاڑے کسی نے اُس کا تختہ اُلٹ دیا ہو… کسی نے نہیں… موتیا نے … وہ اُس کا کوہ نور لے گئی تھی… اُس کا مراد۔
٭…٭…٭