پیر ابراہیم کے ڈیرے پر مراد پر سانپ کے حملے کی خبر مراد کے واپس پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی اورتاجور حواس باختہ پیر ابراہیم کے ساتھ لپکتی ہوئی آئی تھی مگر تب تک مراد گامو کے خاندان کے ساتھ واپس پہنچ چکا تھا۔ تاجور نے اُسے سینے سے لگا کر جیسے اُس کے جسم کے ایک ایک حصے کو چھو کر اُس کے خیر وعافیت سے ہونے کی تسلی کی تھی اور اس وقت اُسے یہ بھی بھول گیا تھا کہ وہاں موتیا بھی تھی جسے مراد کی نظر سے دور رکھنے کے لئے اُس نے سوجتن کئے تھے۔
“تمہارا بڑا احسان آگیا ہے ہمارے کندھوں پر گامو۔”
پیر ابراہیم نے وہاں کھڑے کھڑے بے حد ممنون انداز میں گامو کے دونوں ہاتھوں کو تھام کے کہا تھا اور گامو جیسے پانی پانی ہوگیا تھا۔ کہاں وہ کہاں پیر صاحب اُس کی کیا اوقات تھی کہ وہ اُن پر احسان کرتا۔
“نہیں نہیں پیر صاحب آپ گناہ گار نہ کریں ہمیں! ہم نے کیا احسان کرنا ہے آپ پر… احسان تو آپ کے ہیں ہمارے سر۔” گامو نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا تھا۔
“ہمیں بس معاف کردیں موتیا سے گناہ ہوگیا ایک۔ آپ کے درخت سے ایک امرود اُتار کر کھا لیا اُس نے۔”
گامو نے اُن ہی بندھے ہاتھوں کے ساتھ پیر ابراہیم سے کہا تھا اور اس بار اُس کے جملے پر تاجور نے چونک کر جیسے پہلی بار موتیا کو دیکھا اور پھر اُس نے مراد کو دیکھا جس کی نظریں موتیا پر ٹکی ہوئی تھیں اور اُن میں جوتاثر تھا اُس نے تاجور کو ہولایا تھا۔
“کھا یا نہیں تھا ابھی… سانپ آگیا تھا تو میرے ہاتھ سے گرگیا۔” موتیا نے جیسے وضاحت دی تھی او رپیر ابراہیم نے بے حد محبت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے پیار دیتے ہوئے کہا تھا۔
“موتیا کو اجازت ہے گا مو ہمارے باغ کے جس بھی درخت کا پھل چاہے توڑ کے کھالے۔” اُن کے لہجے کی شفقت اور احترام تاجور کو جیسے کانٹے کی طرح چبھے تھے۔ اُس نے اپنے باپ کے لہجے میں ایسا احترام کبھی کسی کے لئے نہیں دیکھا تھا۔
“میری موتیا کے لئے دُعا کریں پیر صاحب اللہ اُس کے نصیب کھولے اور کسی بڑی اچھی جگہ رشتہ ہوجائے اس کا۔” اللہ وسائی نے کھڑے کھڑے پیر ابراہیم سے بیٹی کے نصیب کے لئے دُعا کرنے کا کہا تھا۔ اس سے پہلے کہ پیر ابراہیم کچھ کہتے تاجور نے مداخلت کی تھی۔
“ہاں ہاں میں کروں گی کسی نہ کسی سے بات بڑے مزارعوں کی بیویاں اپنے بچوں کے رشتوں کے لئے مجھ سے کہتی رہتی ہیں۔ تو اسے حویلی لایا کر اللہ وسائی۔”تاجور کے جملے پر پیر ابراہیم نے بیٹی کو دیکھا تھا اور پھر عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے ایک بار پھر موتیا کے سر پر ہاتھ رکھ کے کہا تھا۔
“کسی مزارع کے گھر نہیں جائے گی موتیا۔ اونچے درجہ پر رہے گی ہمیشہ… اونچا ہی رتبہ رہے گا ہمیشہ۔”تاجور کو باپ کی بات نے جیسے ایک بار پھر تکلیف پہنچائی تھی۔ وہ پیر ابراہیم تھے سات گاؤں جن کے مُرید تھے اور وہ ایک ماشکی کی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُس کے رُتبے اور درجے کی بشارتیں دے رہے تھے۔ کیوں؟… کس لئے؟ صرف اس لئے کہ اُس کے باپ نے مراد کی جان بچائی تھی۔ تاجور جل کر بھّسم ہونے سے پہلے کوئلہ ہوئی تھی۔ پر باپ کے سامنے وہ کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
گامور اور اللہ وسائی کے چہرے پر وہ چمک موتیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جو اُس نے پیر ابراہیم کی دُعا پر اب دیکھی تھی ۔ پیر ابراہیم نے اُسے نظربھر کے بھی نہیں دیکھا تھا۔ موتیا کے سامنے نظریں جھکائے ہی رہے تھے وہ اور موتیا نے اُن کا چہرہ بغور دیکھا تھا۔
اُن کی دُعا اور لفظ اُسے سمجھ نہیں آئے تھے۔ وہ اُسے بس یہ کہہ دیتے کہ اُسے مراد مل جائے گا تو موتیا کی ڈکشنری وہیں شروع اور ختم ہوجاتی۔ ایک لمحہ کو اُس کا دل چاہا تھا وہ پیر ابراہیم سے کہے وہ اُسے اُس کے ساتھ نصیب ہونے کی دُعا دیں جس کی نظریں اس وقت بھی اُس کے چہرے کا طواف کررہی تھیں۔ جو اُس سے بس پندرہ قدم دور کھڑا تھا ۔ موتیا بغیر گنے بھی جیسے فاصلہ ناپ چکی تھی۔ اور ان پندرہ قدموں میں مراد اور اُس کے بیچ بس تاجور تھی وہ نہ ہوتی تو وہ اُس سے چودہ قدم دور ہوتا۔ وہ مراد کی طرح دلیر نہیں تھی کہ وہاں کھڑی اُس کو اُسی طرح دیکھتی جیسے وہ دیکھ رہا تھا۔ پر وہ پھر بھی اُسے دیکھ رہی تھی۔ سفید شلوار قمیض میں ہاتھ سینے پر لپیٹے وہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ اُس نے ایک بار بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ پر اُس سے پندرہ قدم دور کھڑی موتیا جیسے پھر بھی وہ ساری گفتگو سن رہی تھی جو اُس کی نظریں کررہی تھیں۔ وہ مرد کی نگاہ نہیں تھی محبوب کی نگاہ تھی جس میں بس قربان ہوجانے نثار ہوجانے کی آرزو تھی۔ پروانہ بن کر جل جانے کی تمنا تھی۔ جو اُس پر جمی اُس سے کہہ رہی تھی ۔ تجھ سا کوئی دوسرا ہے ہی نہیں موتیا اور نہ کبھی ہو۔
وہ گامو اور اللہ وسائی کے ساتھ اس بولتی نگاہ کو کچھ بھی کہے بغیر پیر ابراہیم کے ڈیرے سے واپس آئی تھی اور مراد کا چین قرار ایک بار پھر لوٹ کر چلی گئی تھی۔
حسن اُس نے بے پناہ دیکھا تھا پر موتیا سا نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھمنڈ میں رہنے والا مرد تھا جس کو لگتا تھا وہ کبھی کسی عورت پر فدانہیں ہوسکتا۔ کنگز کالج میں وکالت پڑھتے ہوئے جو آخری چیز کبھی اُس کے دماغ میں آئی تھی وہ محبت ہی تھی اور وہ ایک نظر میں لُٹا تھا اور ایک نظر میں لُٹنے والا تو کبھی کسی کو بتا بھی نہیں سکتا کہ اُس کے ساتھ ہوا کیا۔ دل کیسے گیا؟ جاں کیسی گئی ؟ وہ پری چہرہ کیا کیا لے گئی؟
٭…٭…٭