مراد کا رومال اب موتیا کی کلائی میں لپٹا ہوا تھا اور وہ اُس کی گرہوں کے ساتھ کھیلتی ہوئی وہی بول گنگنا رہی تھی جو مراد نے اُسے سنائے تھے۔
تجھے دھوپ چھوئے
تو ہیرا
تجھے مے چھوئے
تو پانی
تیرے نین غزالی دلبر
اوہ میرے
دلبر جانی
بتول کی نظریں اُس رومال پر جمی ہوئی تھیں اوراُس نے ایک گہرا سانس لے کر موتیا سے کہا۔
“سب کے سامنے تیرا ہاتھ پکڑ کر رومال باندھ دیا۔ تجھے یقین ہے تیرے لئے رشتہ بھی لے آئے گا؟” موتیا مسکرادی تھی۔
“رشتہ لانا نہ ہوتا تو ہاتھ بھی نہ پکڑتا یہ بھی نہ باندھتا۔ ” اُس نے رومال چھوا تھا۔ بتول کے اندر سے غُبار اُٹھا تھا۔
“تو بڑی خوش نصیب ہے موتیا۔ محبوب ملا ہے تو مراد جیسا… اور ایک مجھے دیکھو میں جسے پانے کے لئے بے حال ہورہی ہوں اُسے پروا ہی نہیں ہے میری۔”
اُس نے موتیا سے بڑی اُداس کے ساتھ اپنے دل کا پھپھولہ پھوڑا تھا اور موتیا موم ہوئی تھی۔
” تو چاہے تو میں سعید سے بات کروں؟” اُس نے فوراً ہی بتول سے کہا۔
“چھوڑ موتیا تیرے بات کرنے سے کیا ہوگا۔ پیار کرنے والے اور محبو ب کے بیچ اگر دُنیا ڈالنی پڑجائے نا ایک دوسرے کو جیتنے کے لئے تو پھر ساری عمر دُنیا ہی ڈالنی پڑتی ہے۔ ” بتول نے عجیب سے انداز میں کہا تھا۔
“تو اُداس نہ ہو بتول … تجھے سعید ضرور ملے گا تو موتیا کی بات لکھ کر رکھ لے۔”موتیا نے اُس کاہاتھ پکر کر اُسے دلاسہ دیا۔
“کیا کوئی خواب دیکھ لیا ہے تو نے؟” بتول کو عجیب اُمید لگی۔
“نہیں تیرے بارے میں نہیں دیکھا اپنے بارے میں دیکھا ہے۔” موتیا نے جواباً ہنس کے کہا۔ بتول کو تجسس ہوا۔
“کیا دیکھا اس بار؟” چند لمحوں کے لئے موتیا اُس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اُس نے کہا۔
“وہ جو سانپ خواب میں دیکھتی تھی نا میں جو مراد کو ڈسنے آیا تھا۔ اُس نے مراد کو نہیں کاٹا تھا۔ مجھے کاٹا خواب میں وہ میں تھی بتول جو سانپ کے ڈسنے پر چیخی تھی۔” اُس نے عجیب سے انداز میں بتول سے کہا تھا اور بتول ساکت رہ کر اُسے دیکھتی رہ گئی۔ موتیا کا خواب کبھی جھوٹا نہیں ہوتا تھا۔ موتیا اپنی کلائی دیکھ رہی تھی جس میں مراد کا رومال بندھا ہوا تھا بالکل اُس جگہ پر جہاں خواب میں سانپ لٹکاتھا۔
٭…٭…٭