Blog

ghar aur ghata new

”سو جا بختے … کتنی راتیں اسی طرح صحن کے چکر کاٹ کاٹ کر گزارے گی ؟” ہر رات کی طرح اس رات بھی اسے صحن میں چکر کاٹتے دیکھ کر شریف اندر چارپائی سے اٹھ کر باہر آ یا تھا۔ ”بس جب سے میرا جبار گیا ہے کسی شے میں میرا دل ہی نہیں لگتا۔ پتہ نہیں کیسے ر ہ رہا ہو گا وہاں۔” بختاور نے بے حد اداسی سے کہا۔ ”وہ بڑا خوش ہے وہاں اس نے فون پر بتایا ہے مجھے۔” شریف نے اسے یاد دلایا۔ ”وہ تو اس نے اس لیے کہا ہو گا کہ میں پریشان نہ ہوں ورنہ ماں اور گھر کے بغیر پردیس میں کیسے خوش رہ سکتا ہے وہ۔ ” بختاور کو یقین نہیں آیا۔ ”بختے تیرا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔ ” شریف نے اسے جتایا۔”کتنا بھی جوان ہو جائے۔ میرے لئے بڑا تھوڑی ہو گا۔” بختاور رونے لگی تھی۔”تیرے کہنے پر ہی میں نے قرضہ لے کر اسے باہر بھجوایا اب تو ہی رو رہی ہے اس کے لئے … ” شریف بگڑا تھا۔ ”بس میرا دل نہیں لگتا کسی بھی شے میں … یاد آتا رہتا ہے وہ مجھے ہر وقت۔” وہ کچھ اور زار و قطار رونے لگی تھی۔ ”آ جائے گا وہ واپس … بس پانچ چھ سال کی بات ہے … تھوڑا پیسہ اکٹھا کر لے ،پھر آ جائے گا واپس … یہیں کوئی کام کرے گا۔ ”شریف نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔ ”تو سچ کہہ رہا ہے شریف ؟ ” بختاور کو روتے روتے جیسے کوئی آس لگی۔ ”اور کیا …اس نے خود کہا ہے مجھ سے… اور پھر دیکھ باقی بیٹے ہیں ابھی ہمارے پاس ان میں دل لگا تو۔” بختاور کے آنسو تھمنے لگے۔


٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!