Blog

ghar aur ghata new

”پر 20ہزار میں کہاں سے لاؤں گا بختے تیرے بیٹے کا دماغ خراب ہو گیا ہے بیٹھے بیٹھے۔ ” شریف جبار کا ارادہ اور مطالبہ سن کر بری طرح بگڑا تھا۔ ”تو کسی سے ادھار لے لے۔” بختاور نے کچھ تھکے انداز میں کہا۔ ”20ہزار کون ادھار دے گا مجھے۔ ” شریف کچھ اور بگڑا۔”تو کسی سے بات تو کر۔” بختاور نے اصرار کیا۔ ”بیٹے کو سمجھاتی کیوں نہیں تو … ؟ ”
”تیرا خیال ہے میں نے نہیں سمجھایا کہ… کتنے مہینے سے ہر روز یہی ایک ضد کرنے بیٹھ جاتا ہے میرے پاس اور اب تو کالج چھوڑنے کی دھمکی بھی دے دی ہے … جب پڑھنا نہیں تو پھر کام تو کرنا ہی ہے اس نے … کرنے دے اسے جا کر باہر کام۔ اس کی بھی زندگی بن جائے۔ ” بختاور نے کہا۔ وہ میدے کی سویاں سکھانے کے لئے بنا رہی تھی اور آج پہلی بار سویاںٹھیک نہیں بن رہی تھیں۔ ”جب گھر خریدنے کے لیے قرضہ لیا تھا تو یاد ہے کتنی مشکل سے چکایا تھا۔ ” شریف نے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔ ”سب یاد ہے … پھر چکا دیا تھا سا را قرض …پھر چکا دیں گے … وہ وعدہ کر رہا ہے کہ باہر جا کر سارے پیسے واپس کر دے گا۔ ” بختاور نے یقین سے کہا۔ ”پر بختے… ” بختاور نے شریف کو بات نہیں کرنے دی۔ ”تو بات کر کسی سے۔”


”گھر کو گروی رکھنا پڑے گا اتنی رقم قرضہ لینے کے لئے۔” بختاور شریف کی بات پر بول ہی نہیں سکی۔ کسی نے جیسے اس کی جان نکال لی تھی۔ ”تو چپ کیوں ہے؟” شریف نے اس سے کہا۔ ”کچھ نہیں ایسے ہی … ” بختاور بمشکل بولی۔ اس نے میدہ ہاتھ سے رکھ دیا تھا۔ ”تجھے اچھا نہیں لگا تو گھر کو رہنے دیتے ہیں۔ میں دکان کو گروی رکھ دیتا ہوں۔” شریف نے یک دم کہا۔ بختاور چونک گئی۔ دکان تو کاروبار تھا۔ رزق تھا۔ خدانخواستہ وہ چلی جاتی تو۔ ”نہیں ٹھیک ہے تو مکان ہی کو گروی رکھ دے… جبار نے وعدہ تو کیا ہے۔ جاتے ہی سارا قرضہ لوٹا دے گا وہ … بس ٹھیک ہے تو مکان ہی گروی رکھ دے … ” بختاور نے شریف سے زیادہ جبار کا وعدہ جیسے خود کو تسلی دینے کے لئے دہرایا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!