Blog

ghar aur ghata new

دوپٹے سے اماں بختے نے اپنی آنکھیں رگڑیں … دس سال ہو گئے تھے شریف کو گئے پر ہر بار وہ اسے یاد آتا تھا تو دل بھر آتا تھا۔
دور سے عبدل جوتا گھسیٹتے آ رہا تھا۔ اماں اب اس کے چلنے کی آواز تک پہچانتی تھی۔ وہ یک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
”آ گیا بیٹا …” اس نے عبدل کو قریب آنے پر کہا۔ عبدل کے ہاتھ میں پھلوں کا لفافہ تھا۔ دہلیز میں اس کے نمودار ہوتے ہی سونو بھاگتا آ گیا تھا۔ عبدل نے اماں کے سلام کا جواب نہیں دیا اس کی پوری توجہ چار سالہ سو نو پر تھی جو اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر اب اس لفافے کو اس کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کر رہا تھا۔
”لے چھین کیوں رہا ہے … تیرے لیے ہی لایا ہوں … تیرا ہی ہے سب کچھ۔” عبدل لفافہ سو نو کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے اندر چلا گیا۔ اماں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی تھی۔


٭
”تجھ سے ایک بات کرنی ہے اماں۔” عبدل کے لہجے میں ایسی مٹھاس کتنی دیر بعد سنی تھی اس نے … وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گئی … ”ہاں … ہاں … بول بیٹا … ”
عبدل اس کی چارپائی پر بیٹھ گیا تھا۔ ”بچے بڑے ہو رہے ہیں ہمارے … اور گھر بڑا چھوٹا ہے۔ ” عبدل نے تمہید باندھنی شروع کی۔ اماں نے سوچے سمجھے بغیر اس کی تائید کی۔ ”ہاں گھر تو چھوٹا ہے … چار بچوں کے ساتھ آسانی سے تو گزارہ نہیں ہوتا… پر تو فکر نہ کر … میں اللہ سے دعا کروں گی تجھے اور رزق دے اتنا پیسہ دے کہ تو اوپر بھی ایک کمرہ بنا لے۔ ” اماں کا خیال تھا وہ دعا لینے آیا تھا۔ ”رزق اور پیسہ تو جب آئے گا آئے گا … فی الحال تو میں یہ چاہتا ہوں کہ تو برآمدے میں سو جایا کر۔ اس کمرے میں بچوں کو رکھنا چاہتے ہیں ہم۔ ” عبدل کے لہجے میں اس بار ٹھنڈک تھی۔ ”پر برآمدے میں تو صوفہ… ” بختاور نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ عبدل نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”صوفہ وہیں رہے گا … دن کے وقت رضیہ تجھے صحن میں چارپائی ڈال دیا کرے گی اور رات کے وقت صوفہ ہٹا کر برآمدے میں۔ ”


”پر عبدل تجھے پتہ ہے مجھے برآمدے میں سونے کی عادت نہیں ہے۔ ” بختاور نے بڑی کمزور آواز میں کہا۔ ”جب سونا شروع کرو گی تو عادت ہو جائے گی اماں … اب ابا تو ہے نہیں … پورا کمرہ کیا کرنا ہے تو نے … ؟” عبدل نے کچھ بے زاری سے کہا۔ ”میں بچوں کو اپنے ساتھ سلا لوں گی۔ وہ تو پہلے بھی میرے پاس ہی سوتے ہیں۔ ” اماں نے آخری مزاحمت کی۔ ”بچوں کو پڑھائی کے لئے جگہ چاہیے … تیرے کھانسنے سے وہ تنگ ہوتے ہیں … ساری عمر کمرے میں رہی ہے تو اماں … اب برآمدے میں رہ لے گی تو کیا ہو گا … تجھے گھر سے نہیں نکال دیا ہم نے … ” عبدل دو ٹوک انداز میں کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ اماں بختے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ روئے یا اسی طرح بیٹھی رہے … واقعی کسی نے اسے گھر سے تو نہیں نکالا تھا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!