Blog

ghar aur ghata new

”بسکٹ لے لوں اماں؟” سونو نے دادی کی دکان سیٹ کرنے کے بعد بڑے لاڈ سے اس کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔ یہ”اُجرت” وہ روز لیا کرتا تھا … دادی کی دکان سجانے کا معاوضہ۔
”ٹھہر میں خود دیتی ہوں تجھے۔” اماں بختے نے کانپتے ہاتھ کے ساتھ بسکٹ کے ڈبے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ ”آج ساری چیزیں اپنے ہاتھ سے دوں گی میں تجھے … تیری ماں ناراض ہوتی ہے پھر۔” سونو نے دادی کی بات پر بڑی فرماںبرداری سے سر ہلا لیا۔ ”ٹھیک ہے۔ ”اماں بختے نے ڈبے سے بسکٹ کاایک پیکٹ نکال کر اسے دے دیا۔ ”دیکھ پانی لا دے مجھے۔” اماں نے ساتھ ہی اُسے کہا۔ سونو سر ہلاتا بسکٹ کا ریپر کھولتے ہوئے دہلیز سے اندر چلا گیا۔


گلی میں صبح صبح لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی … مرد کام پر جا رہے تھے … بچے سکول کو … اور عورتوں نے باہر جھانکنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں سے گزرتے لوگ نالی پر دس ڈبوں کے ساتھ اپنی دکان سجائے اماں بختے کے وجود کے عادی تھے … اس کے وجود سے زیادہ اس کی بڑبڑاہٹ کے … وہ دہلیز پر بیٹھی سارا دن آتے جاتے لوگوں کودیکھتے بڑبڑاتی رہتی تھی … کئی لوگ اسے پاگل سمجھتے تھے … اور کئی خبطی … اس کے پاس سے گزرنے والوں کو کبھی اس کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی … سمجھ تب آتی اگر کوئی اس کے پاس رکتا … اس لوئر مڈل کلاس محلے کے لوگوں کے پاس اپنے لیے وقت نہیں تھا … زندگی دو وقت کی روٹی کے لئے انہیں چکّی کے دو پاٹوں میں پیس رہی تھی … اس 70 سالہ بوڑھی عورت کے لئے کوئی وقت کیسے نکالتا۔
لیکن پاس سے گزرنے والا ہر شناسا محلے دار اماں بختے کو سلام ضرور کر جاتا تھا۔ جواب چاہے ملتا نہ ملتا …
اماں بختے کو اب اپنے پہلے گاہک کاانتظار تھا۔ اپنے سامنے سجے ڈبوں کووہ بے مقصد ٹھیک کر رہی تھی۔ پھر اس نے اس ڈبے کو اٹھا کر گود میں رکھ لیا جس میں وہ پیسے ڈالتی تھی۔ ڈبے میں ہاتھ ڈال کر اس نے اندر موجود دس بارہ سکّوں کو باہر نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا۔ وہ شاید رضیہ نے اس لیے رکھ چھوڑے تھے تا کہ وہ بقایا دے سکے۔ چمکتے ہوئے ان سکّوںکو ہتھیلی پر پھیلائے دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑانے لگی تھی۔ ”گھاٹے کی سمجھ نہیں آتی … گھاٹا کب ہونا شروع ہو تا ہے … یہ بھی پتہ نہیں چلتا …” وہ اب جیسے سکّوں سے پوچھ رہی تھی۔ ”پہلی بار گھاٹا کب ہوتا ہے انسان کو؟… جب وہ خود پیدا ہوتا ہے … ؟ یا جب وہ اولاد پیدا کرتا ہے …؟”
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!