Blog

ghar aur ghata new

”کھانا آ گیا اماں۔” سو نو نے چہکتے ہوئے اعلان کیا۔ ایک پلیٹ میں ایک روٹی رکھے اور اسی پلیٹ کے کونے میں سالن کی ایک کٹوری رکھے وہ بڑی احتیاط سے دہلیز پر نمودار ہوا تھا۔ اماں بختے ایک بار پھر حال میں واپس آ گئی تھی۔ ”لامیرا لعل … روٹی دے مجھے۔ ” اماں نے کچھ بے صبری اور خوشی سے کہا۔ روٹی اور چائے یا گھر سے کسی دوسری کھانے والی شے کا ملنا پورے دن میں اس کے لئے خوشی کے سب سے بڑے لمحات تھے۔


سونو نے پلیٹ اسے تھما دی۔ اماں نے پلیٹ سامنے میز پر رکھ دی۔ ”ہاتھ تو دھلا میرے۔ ” اماں نے سو نو سے کہا۔ وہ اندر گیا اور چند سیکنڈز میں پانی کے ایک گلاس کے ساتھ نمودار ہوا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے نالی کے اوپر اماں نے ہاتھ بڑھا دیئے اور سو نو ان پر پانی ڈالنے لگا۔ ”چل بس کر … دھل گئے۔” اماں نے اپنی قمیص کے ایک کونے سے ہاتھوں کو خشک کرتے ہوئے کھانے کی پلیٹ کو اٹھا کر گود میں رکھ لیا۔ سو نو گلاس ہاتھوں میں لے کر دہلیز پر بیٹھ گیا۔ گلاس ابھی آدھا بھرا ہوا تھا۔ یہ باقی کا پانی اماں کھانا کھاتے ہوئے پیتی تھی۔
”کتنے گاہک آئے اماں ؟ ” سو نو کو یک دم ”کاروبار ” میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اماں روٹی کا لقمہ ہاتھ میں پکڑے آلوؤں کے شوربے میں سے گوشت کا کوئی ٹکڑا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہفتے میں ایک دن گھر میں بڑا گوشت پکتا تھا اور آج وہی دن تھا … کٹوری کی تہہ میں گوشت کے چند ریشے اور کچھ چھیچھڑے بالآخر اماں کو مل گئے۔ اس نے جیسے خوش ہو کر لقمہ منہ میں رکھا۔ ”دو گاہک آئے۔ ” منہ میں موجود چند آخری دانتوں کے ساتھ لقمے کو چوسنے اور چبانے کی جدو جہد کے دوران اس نے سو نو کو بتایا۔”میں پیسے گنوں … ؟” سونو نے فوراً پیش کش کی۔ ”نہیں … بے برکتی ہوتی ہے اس سے… رات کو ہی گنیں گے … جب دکان بند کروں گی۔” اماں نے اسے بے اختیار روکا۔ ”پر میرے سامنے گننا اماں … میں نے دیکھنا ہے گھاٹا کیسے ہوتا ہے۔” سو نو نے معصومیت سے کہا۔ شوربے میں متحرک اماں کی انگلیاں ساکت ہو گئیں۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!