Blog

ghar aur ghata new

”سلام بختے۔” حمیدہ نے دروازہ کھول کر اندر آتے ہوئے کہا۔ بختاور صحن میں بیٹھی لفافے جوڑ رہی تھی اور ساتھ ساتھ جھولے میں پڑے بچے کو جھلا رہی تھی۔ ”وعلیکم السلام … آج صبح صبح کیسے آ گئی ہو حمیدہ ؟” بختاور نے جواباً پوچھا۔ ”محلے کی عورتیں مینا بازار چل رہی ہیں۔ میں نے سوچا تجھے بھی پوچھ لوں۔”
”نہیں حمیدہ مجھے تو بڑا کام ہے۔ ” بختاور نے فوراًکہا۔ ”وہ سب کو ہی ہوتا ہے … کون سا روز جانا ہے ہمیں … کبھی کبھار گھر سے نکلنا چاہیے بختے۔”


”پر مجھے ابھی منّے اور شریف کے کپڑے دھونے ہیں۔ لفافے رہنے بھی دوں تو بھی بہتیرے کام ہیں مجھے۔” بختاور نے صاف انکار کردیا۔ ”شوہر ، گھر بچے کسی کو کچھ نہیں ہوتا … سب یہیں رہتے ہیں … عورت کے پاس کچھ وقت اپنے لئے بھی ہونا چاہیے گھر کے اور بچوں کے لئے تو ساری عمر ہی جان مارنی ہوتی ہے۔ ” حمیدہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ اس کے لفظوں نے بختاور پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔
”ہاں مگر میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں۔ مینا بازار آنے جانے کا کرایہ۔ وہاں کھانا پینا … کچھ خریدنا … نہ حمیدہ میرے پاس پیسے نہیں۔ ” بختاور نے اپنی مشکل بتائی۔ ”ارے تو تو مجھ سے ادھار لے لے … بعد میں دے دینا … پہلے بھی تو گھر اور بچے کے لئے ادھار لیتی ہے … اس بار اپنے لیے لے لینا۔ ” حمیدہ نے فوراً پیش کش کی۔ لفافہ جوڑتے جوڑتے ایک لمحے کے لئے بختاور کے ہاتھ رکے پھر ا س نے یک دم کہا۔ ”نہیں حمیدہ اپنے لیے ادھار نہیں لے سکتی … یہ تو نرا گھاٹا ہے۔ ” حمیدہ نے کچھ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!