Blog

ghar aur ghata new

”اماں میں جیلی لے لوں…؟” سونو نے اسے ایک بار پھر چونکا یا۔ وہ منہ کھول کر جماہی لیتے ہوئے کھانے پینے کے ڈبوں میں پڑی چیزوں پر نظر ڈال رہا تھا۔ ”جیلی کیا…؟” ایک لمحے کے لئے اماں بختے کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ ”یہ والی جیلی۔” سو نو نے جیلی کا پیکٹ پکڑ کر اس کے سامنے لہرایا۔ وہ اماں بختے کی دکان کا سب سے مہنگا آئٹم تھا۔ ”ساری جیلی کھائے گا ؟” اماں کچھ گریزاں ہوئی۔ ”ہاں بھوک لگ رہی ہے۔” سونو نے کہا۔ ”تو بسکٹ کھا لے۔ ” اماں نے بسکٹ کا ایک پیکٹ اٹھایا۔ ”نہیں مجھے تو جیلی ہی کھانی ہے … بس جیلی ہی … مجھے جیلی ہی کی بھوک ہے۔ ” سو نو نے دو ٹوک انداز میں اماں سے کہا۔ ”اچھا چل لے لے … بڑی ضد کرنے لگا ہے اب تو سو نو … ” اماں نے فوراً اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے جیلی کا پیکٹ اسے تھما دیا تھا۔ سو نو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیںرہا تھا۔ اس نے اماں کے تبصرے پر بھی غور نہیں کیا۔ وہ بس خوشی خوشی جیلی کا پیکٹ کھولنے میں مصروف تھا۔


اماں نے جو کچھ زرق برق کپڑوں میں ملبوس کچھ بچیوں کو اپنے سامنے سے گزر کر گلی کے ایک گھر میں جاتے دیکھا۔ شاید بڑی گلی کے کسی گھر میں شادی تھی کیونکہ بہت دور سے باجوں کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی۔
”اماں میں دولہا دیکھوں گا۔ ” سونو نے یک دم کھڑے ہو کر اعلان کیا۔ باجوں کی آواز اس نے بھی سن لی تھی۔ ”اماں سے پوچھ کر جانا سونو۔ ” اماں بختے نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ”اماں کو رہنے دو۔ ” سونو تقریباً بھاگتا ہوا کہتا چلا گیا۔ محلے کے کچھ اور گھروں سے بھی بچے اور کچھ عورتیں نکل کر بڑی گلی کی طرف گئی تھیں۔ باجوں کا شور اب بہت زیادہ اور بہت قریب آ رہا تھا۔ اماں جا سکتی تو اس وقت وہ بھی گلی کے موڑ پر کھڑے مجمع میں شامل ہوتی جو بڑی گلی سے گزرنے والی بارات کو دیکھ رہا تھا۔
دس پندرہ منٹ کے بعد باجوں کا شور کم ہونے لگا پھرآہستہ آہستہ اس مجمع میں موجود عورتوں اور بچوں کی اپنے اپنے گھر کو واپسی ہونے لگی۔
اماں سونو کی منتظر تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے بالآخر سونو کو نمودار ہوتے دیکھ لیا۔ اماں نے اطمینان کا سانس لیا۔
”دیکھ لی بارات؟” سونو کے قریب آتے ہی اماں نے پوچھا۔ ”ہاں” سو و نے قدرے پر جوش انداز میں کہا۔ ”دولہا بھی دیکھا ؟” اماں بختے نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ ”ہاں دولہا بھی دیکھا۔” سونو نے سر ہلایا۔ ”اماں میری شادی کب ہو گی؟” سو نو نے یک دم اماں سے پوچھا۔ اماں کو ہنسی اور کھانسی کا دورہ پڑا۔ ”شادی کرے گاتو؟” اماں نے دونوں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ”ہاں” سونو سنجیدہ تھا۔ ”اچھا میں کہتی ہوں تیری ماں سے … کہ لڑکی ڈھونڈے تیرے لئے۔” اماں بختے نے ہنستے ہنستے کہا۔”لڑکی کیوں ڈھونڈے؟” سونو چونکا۔ ”لے لڑکی کے بغیر ہی شادی کر لے گا ؟ ” اماں کو ہنسی اور کھانسی کا ایک اور دورہ پڑا۔”پر اماں میں نے تو تیرے ساتھ شادی کرنی ہے۔” سونو نے اسی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ اس بار اماں کو صرف کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔ مزید ہنسنے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔ ”پر سو نو میں تو بوڑھی ہو گئی ہوں۔ ” اماں نے بالآخر اپنی ہنسی اور کھانسی دونوں پر قابو پا لیا تھا۔ ”کوئی بات نہیں۔ ” سونو کی سنجیدگی برقرار تھی۔ ”اچھا پھر کیا کرے گا؟” اماں بختے نے پوچھا۔ ”پھر میں اپنے سارے پیسے تجھے دے دوں گا۔ جیسے ابا اماں کو دے دیتا ہے … میں بھی ساری چیزیں تجھے ہی لا کر دوں گا … ” اماں کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ ”کیوں ؟ … ” اس نے بمشکل پوچھا۔ ”تا کہ تجھے گھاٹا نہ ہو۔ ” سونو نے جواب دیا۔ اماں کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!