Blog

ghar aur ghata new

”مجھے تجھ سے ایک بات کرنی ہے شریف۔ ” بختاور رات کے وقت شریف کی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ ”ہاں بول ”شریف نے کچھ چونک کر اسے دیکھا۔ ‘ تو درزی کے کام کے ساتھ ساتھ کوئی اور کام بھی ڈھونڈ۔” شریف اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ”کیوں ؟ … کیا ہوا ؟” اب گزارہ نہیں ہوتا شریف … گھر کی اگلی قسط قریب ہے … اس بار پھر کسی سے قرضہ لینا پڑے گا۔ ” بختاور پریشان تھی۔ ”میں خود بھی یہی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہاہو ں۔ ” شریف نے بے حد تھکے ہوئے انداز میں کہا۔ ”اب تو بیچنے کے لئے بھی کچھ نہیں رہا۔ ” بختاور نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”گھر کے اخراجات کچھ کم ہو جائیں تو … ” بختاورنے شریف کی بات کاٹ دی۔ ”اور کتنے کم ہوں گے۔ پہلے ہی ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں ہم لوگ۔ دوپہر کو تو چٹنی یا پیاز کے ساتھ روٹی کھاتی ہوں میں … بچے کے دودھ کے علاوہ دودھ بھی نہیں لیتی … چائے تک دودھ کے بغیر پیتی ہوں میں … کتنے مہینوں سے کوئی نیا کپڑا نیا جوتا نہیں لیا میں نے اپنے لیے … بچے کے بھی کپڑے ان کترنوں سے بناتی ہوں جو تم دکان سے لے کر آتے ہو … اب اور کون سے اخراجات کم کروں میں شریف۔” وہ شریف ہی کی طرح تھکی ہوئی تھی۔ گھر تو خرید لیا تھا ان دونوں نے لیکن سہ ماہی اقساط اب ان دونوں کو بے حال کر رہی تھیں۔


”اچھا میں بات کروں گا کل کسی سے … رات کا کوئی کام مل جائے چار پانچ گھنٹوں کا تو … کچھ پیسے مل جائیں گے۔ ” شریف نے کچھ سوچ کرکہا۔ ”میں نے بھی حمیدہ سے کہا ہے کہ مجھے بھی لفافے بنانے کے لئے لا دیا کرے … سارا دن فارغ رہتی ہوں … مہینے کے کچھ روپے تو آ ہی جائیں گے اور کچھ نہیں بچے کے بسکٹ اور دوا دارو کے پیسے تو نکل ہی آ یا کریں گے۔” بختاور ہر رات کی طرح اس وقت بھی بیٹھی حساب کر رہی تھی۔ شریف کچھ کہے بغیر چارپائی پر لیٹ گیا۔ بختاور نے چونک کر اسے دیکھا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!