Blog

ghar aur ghata new

”دیکھ شریف میری بہو کا دوپٹہ … ” بختاور نے بڑی خوشی خوشی ایک سرخ دوپٹہ شریف کے سامنے پھیلا یا جس پر وہ گوٹا لگا رہی تھی۔ شریف تھوڑی دیر پہلے ہی کچھ سامان لے کر کمرے میں آیا تھا اور اب اپنے جوتے اتار رہا تھا۔ اس نے بڑے بے تاثرانداز میں دوپٹے پر ایک نظر ڈالی اور مدھم آواز میں کہا۔ ”اچھا ہے۔ ” بختاور نے اس کے بجھے ہوئے لہجے پر غور کئے بغیر کہا۔ ”بس آج رات مکمل کر لوں گی اسے … چاہے رات جاگنا ہی کیوں نہ پڑے مجھے۔ ” بختاور ایک بار پھر دوپٹے پر گوٹا لگانے لگی۔ ”میں سوچ رہا ہوں ہم یہ کمرہ عبدل اور اس کی دلہن کو نہ دے دیں۔” شریف نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔ بختاور نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”کیا مطلب؟ … اپنا کمرہ عبدل کو دے دیں … تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔”وہ ناراضگی سے کہہ کر دوبارہ گوٹا لگانے لگی۔ ”ہاں … یہ ذرا اچھا کمرہ ہے … بڑا بھی ہے … ” شریف نے کہا۔ ”عبدل کا کمرہ بھی اچھا ہے۔” بختاور نے دو بہ دو کہا۔ ”یہ ذرا زیادہ اچھا سجا ہے۔ ”شریف نے کہا۔ ”میں عبدل کے کمرے کو بھی اچھی طرح سجا دوں گی رضیہ کے سامان سے تو فکر نہ کر۔” بختاور نے اس کی بات کاٹی۔ ”پھر بھی میں … ” بختاور نے اس بار پھر اس کی بات کاٹی۔ ”میں تو اپنا کمرہ کبھی نہیں چھوڑوں گی … چاہے ایک نہیں تین تین بہوئیں آجائیں … تو ایسا خیال بھی اپنے دل میں مت لانا … عبدل کو پتہ چلا تو ہنگامہ مچا دے گا وہ کہ ابا نے ایسا سوچا بھی کیوں۔ ” بختاور نے بے حد غرور سے کہا۔ ”تجھے پتہ ہے کیسے جان چھڑکتا ہے وہ مجھ پر … یہ تو برداشت بھی نہیں کرے گا کہ میری جوتی بھی ادھر سے ادھر ہو اور تو کمرہ چھوڑنے کو … ” وہ گوٹا لگاتے بڑے مان سے بولتی جا رہی تھی۔ جب شریف نے مدھم آواز میں اس کی بات کاٹی۔”عبد ل نے ہی کہا ہے مجھ سے … کہ اسے اپنی بیوی کے لئے یہ کمرہ چاہیے۔ ” گوٹا لگاتے ہوئے سوئی اس کی انگلی میں چبھی تھی پر زخم دل پر پڑا تھا۔ وہ گوٹے کے پھولوں سے نظر نہیں اٹھا سکی … نظر اٹھا کر شریف سے نظریں ملانا ایسا ہی دو بھر ہو گیا تھا اس کے لئے۔ پھر یک دم اس نے مسکرا کر سر اٹھایا اور پلکیں جھپک کر آنکھوں میں امڈتی نمی کو چھپا تے ہوئے کہا۔ ”ہاں تو … وہ … وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے … وہ کمرہ چھوٹا ہے … یہ … یہ ٹھیک ہے … ہم نے اتنا بڑا کمرہ کیا کرنا ہے … میں تو خود ہی سوچ رہی تھی کہ عبدل کو خود ہی کہوں۔”
”تو رو رہی ہے بختے … ” شریف نے اس کی آنکھوں میں آتی نمی کو دیکھ کر بے چین ہو کر پوچھا۔ ”نہ … نہ … رونا کیوں ہے میں نے … یہ سوئی لگ گئی ہے انگلی میں … تجھے تو پتہ ہے مجھ سے چوٹ نہیں سہی جاتی۔” اس نے ہنس کر دوپٹے سے آنکھوں کو رگڑا اور دوبارہ دوپٹے پر گوٹا لگانے لگی۔


٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!