Blog

ghar aur ghata new

”اب آنکھیں کھول۔ ” شریف نے اس کے ہاتھ پر کچھ رکھتے ہوئے کہا۔ بختاور نے بے اختیار آنکھ کھول کر اپنی ہتھیلی دیکھی۔ اس کی ہتھیلی پر ایک چابی رکھی تھی۔ ”یہ کیا ہے ؟” اس نے بے حد حیرانی سے شریف سے پوچھا۔ ”یہ ہمارے گھر کی چابی ہے۔ ” شریف نے بے حد فخریہ انداز میں کہا۔ بختاور جیسے کرنٹ کھا کر سیدھی ہو گئی۔ ”ہمارے گھر کی چابی ؟ تو نے بیعانہ دے دیا …؟ سودا کر لیا ؟ ” اس کی آواز شدتِ جذبات سے لرز رہی تھی۔ اس نے چابی مٹھی میں بھینچ لی تھی۔ ”ہاں میں نے سوچا تجھے اولاد پیدا ہونے پر خوش خبری دوں گا۔ ” شریف نے بڑے پیار سے کہا۔


”میرے اللہ تو … تو کتنا مہربان ہے … تو نے کیسے میرے دل کی سنی ہے … دیکھ لے شریف میری اولاد کتنی خوش قسمتی لے کر آئی ہے ہم دونوں کے لیے … ” بختاور نے بے اختیار اپنے بیٹے کو چومتے ہوئے کہا۔”تو بختاور ہے تو تیری اولاد بھی تو بختاور ہی ہو گی۔ ْ” شریف نے جیسے اس کی تائید کی۔”پر بیعانے کے پیسے کہاں سے آئے تیرے پاس؟” بیٹے کو چومتے چومتے بختاور کو خیال آیا۔”وہ سائیکل بیچ دی ہے میں نے اپنی۔ ” شریف نے اطمینان سے کہا۔”ہائے … سائیکل کیوں بیچ دی؟” بختاور نے بے ساختہ پریشان ہو کر کہا۔”گھر … سائیکل سے زیادہ ضروری تھا … کرائے کے گھر میں رکھتا تجھے ساری عمر … ” شریف بڑا مطمئن تھا۔ ”کتنے کی بیچی؟ … گھاٹا ہوا ہو گا … ابھی تو نئی تھی۔ ” بختاور نے کچھ تشویش سے کہا۔ ”ہاں تھوڑا گھاٹا تو ہوا ہے۔ پورے پیسے تو نہیں ملے پر گھاٹے کی فکر نہیں مجھے۔ ” شریف پر سکون تھا۔”اب کام پر کیسے جایا کرے گا تو اتنی دور … ” بختاور کو اب اس کی فکر ستانے لگی تھی۔ ”پیدل جاؤں گا … صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے پیدل چلنا …” شریف نے ہنس کر کہا ”روز پانچ میل چل کر آیا جایا کرے گا۔ ”بختارو کو اب بھی جیسے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ ”تو ہی تو کہہ رہی تھی کہ میں موٹا ہو رہا ہوں… اچھا ہے اب روز پانچ میل چلوں گا تووزن کم ہو جائے گا۔ ”
”پر شریف … ” شریف نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔ ”اچھا چھوڑ اب یہ بات … لے لوں گا سائیکل دو چار مہینے میں … تو فکر نہ کر۔ ” بختاور چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے مٹھی کو کچھ اور بھینچ لیا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!