Blog

ghar aur ghata new

شریف نے چونک کر کھانا کھاتے اس کاغذ کو دیکھا۔ جو بختاور نے پنکھا جھلتے جھلتے اچانک اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔ ”یہ کیا ہے؟”
”میں نے آج گھر کی مر مت اور دوسری چیزیں کا حساب لگایا ہے … وہ ساری چیزیں جو گھر میں ہونے والی ہیں۔ ” بختاور نے اسے بتایا۔ کھانا کھاتے کھاتے اپنی انگلیاں چوس کر صاف کرتے ہوئے شریف نے وہ کاغذ اٹھا کر کچھ تجسس کے عالم میں پڑھا۔ اس کے ماتھے پر کچھ بل آ گئے تھے۔ ”یہ تو بڑے پیسے لگ جائیں گے بختے … چوڑی بیچ کر اتنے پیسے تو نہیں ملیں گے ” ا س نے کچھ تشویش سے کہا۔ ”پتہ ہے مجھے۔ اس لئے میں نے سوچا ہے اپنی بالیاں اور شادی کی انگوٹھی بھی بیچ دوں… زیور کا کیا ہے زیور تو آ ہی جاتا ہے۔ ” اس نے بے حد اطمینان کے ساتھ کہا۔ ”پر بختے ابھی مکان کی قسطیں جانی ہیں۔ مرمت پر سارا پیسہ لگا دیں گے تو قسطیں کہاں سے دیں گے … اگر زیور بیچنا ہی ہے تو قسطوں کے پیسے دے دیتے ہیں … مرمت تو میں اور تم مل کر تھوڑی تھوڑی کرتے رہیں گے۔ ” بختاور یک دم مایوس ہو گئی۔ ”خود کیسے کریں گے مرمت ؟ ”


”چل تو نہ کرنا میں کر لوں گا … چھٹی والے دن شروع کرتا ہوں کام” شریف نے فوراًکہا۔ ”ایک چھٹی کا دن ہی ہوتا ہے تیرے پاس آرام کرنے کے لئے … وہ بھی کام میں ضائع کرے گا … چھوڑ شریف مجھے بتا … تھوڑا تھوڑا کر کے میں کر لوں گی… رنگ کر لوں گی … پلستر بھی تھوڑا بہت کر سکتی ہوں۔ ” بختاور نے سوچتے ہوئے کہا۔ ”تو بچہ سنبھالے گی یا یہ کام کرے گی … میں جب کام کروں گا نا تو تُو ساتھ ہاتھ بٹا دینا میرا … پر اس طرح بچے کو چھوڑ کر گھر کی مرمت پر دھیان نہ دے … دیکھ وہ شاید جاگ گیا ہے … ذرا لے کر آ اسے میرے پاس۔” بات کرتے کرتے شریف نے دور پنگھوڑے میں حرکت دیکھی۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!