Blog

ghar aur ghata new

”پھر روٹی چھوڑ دی۔ ” سو نو نے اس بار اس کا ہاتھ ہلایا تھا۔ بختے جیسے کسی خلا سے واپس آئی تھی۔ سالن اب اور ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ ”ہاں کھاتی ہوں میں۔” اماں بختے نے بے حد بے دلی کے ساتھ کہا۔ ”اماں میں تجھے ایک بوٹی لا کے دوں … اپنے سالن سے … ؟ ” سو نو کو یک دم پتہ نہیں کیا خیال آیا تھا۔”بوٹی … ” اماں بختے بے اختیار بڑبڑانے لگی۔
٭
”اماں اور سالن چاہیے۔ ” بختاور کے سب سے چھوٹے اور تیسرے بیٹے عبدل نے ضد کی۔ وہ سب صحن میں دستر خوان بچھائے کھانا کھا رہے تھے۔ ”اور سالن تو نہیں ہے بیٹا… کل زیادہ سالن دوں گی تجھے۔ ” بختاور نے اسے بہلایا۔ ”پر کل بوٹی والا سالن تو نہیں ہوگا … مجھے بوٹی والا سالن لینا ہے۔ ” عبدل نے ضد کی۔”لا میں دیتا ہوں تجھے۔ ” شریف نے اپنا کٹورہ اٹھایا۔ ”تو چھوڑ شریف میں اپنا سالن ڈال دیتی ہوں اسے۔ ” بختاور نے اسے ٹوکا۔ ”نہیں اماں میں نے ابا کا سالن لینا ہے … بوٹی والا … تیرے سالن میں بوٹی نہیں ہوتی۔”
عبدل نے فورا کہا اور اپنا کٹورہ باپ کے سامنے رکھ دیا۔ شریف نے اس کی بات پر ہنستے ہوئے اپنا تقریباً سارا سالن اس کے کٹورے میں الٹ دیا تھا۔ یہ لے میرا بیٹا اب کھا … ” شریف نے اسے پچکارا تھا۔ شریف خود اب اپنے برتن میں بچے ہوئے تھوڑے سے شوربے میں اپنی روٹی لگا لگا کر کھانے لگا تھا۔


٭
”لاؤ میں بوٹی لا کر دوں اماں۔ ” سونو نے اس کے ہاتھ سے سالن والا برتن لینے کی کوشش کی۔ اماں نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے ٹوکا۔ ”نہ سو نو … بس یہ برتن اندر لے جا … ” اماں نے اسے پلیٹ پکڑا دی تھی۔ ”پر تو نے روٹی تو کھائی نہیں اماں۔” سو نو نے پلیٹ پکڑتے ہوئے اس سے کہا۔”بھوک نہیں ہے سونو۔ ” اماں نے اداسی سے پانی کا گلاس پکڑ لیا۔ ”بھوک کیوں نہیں ہے ؟ ” سو نو نے پوچھا۔ ”اس عمر میں بھوک نہیں لگتی۔”
”کیوں اماں؟” ”مجھے نہیں پتہ۔” اماں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ ”تو پھر کس کو پتہ ہے ؟ ” سو نو ٹلنے والانہیں تھا۔ اماں کچھ دیر چپ رہی پھر بولی۔ ”اللہ میاں کو …” ”وہ کدھر رہتا ہے؟” سو نو نے تجسس سے کہا۔ ”جہاں تیرا دادا رہتا ہے۔” اماں بختے نے آنکھوں میں نمی لئے کہا۔ ”دادا اللہ کے پاس کیوں رہتا ہے؟” اماں بختے سے پانی نہیں پیا گیا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!