Blog

ghar aur ghata new

عبدل کی چاروں بڑی بیٹیاں اسکول سے واپس آ گئی تھیں۔ اماں بختے نے ان کے کھلکھلانے کی آواز دور سے سن لی۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ ”سلام اماں ” اماں کے پاس سے گزر کر گھر کے اندر جاتے ہوئے ان چاروں نے باری باری کہا تھا۔ اماں ایک ایک کے پیروں کو گھر کے اندر جاتا دیکھتی رہی۔ سونو صحن میں چھوٹی بہن سے لپٹ رہا تھا۔ پھر بڑی بہن نے اسے اٹھا کر پیار کیا۔ … سونو کی توجہ یک دم دادی سے بہنوں پر منتقل ہو گئی تھی، اور اماں بختے کچھ بے چین ہو گئی تھی۔
”سو نو … سونو ” اس نے بے اختیار آوازیں دینا شروع کر دیا … یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے سونو کو آوازیں دیتا سن کر رضیہ بولنا شروع کر دے گی … اور ایسا ہی ہوا تھارضیہ نے اماں بختے کو جھڑکنا شروع کر دیا تھا صحن میں اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے … لیکن سونو پھر بھی باہر آ گیا تھا۔ اماں بختے کو رضیہ کے لعن طعن کی پرواہ نہیں تھی۔
”کیا ہے اماں ؟ ” سونو نے باہر آتے ہی پوچھا۔ ”تجھے دادی بھول گئی کیا ؟” اماں نے اسے آتے دیکھ کر ٹافیوں کاایک ڈبہ ٹٹولنا شروع کر دیا تھا اور سو نو نے اس کے ہاتھ کی حرکت دیکھ لی تھی۔ ”نہیں تو اماں … یہ والی ٹافی دے دو مجھے۔” سونو نے لاڈ سے کہتے ہوئے اماں کو اپنی پسند بھی بتا دی تھی۔


اماں نے ایک کی بجائے دو ٹافیاں نکال کر اسے تھما دیں۔ سونو نے بہت ہنستے ہوئے اماں سے ٹافیاں لی تھیں۔ ”اب بیٹھ جا میرے پاس۔ ” اماں بختے نے اس سے کہا۔ سو نو بڑی فرماں برداری سے اس کے پاس بیٹھ گیا۔ گلی سے یک دم ایک سکوٹر گزرا سو نو ٹافی کھولنا کچھ دیر کے لئے بھول گیا۔ وہ تب تک سکوٹر کو دیکھتا رہا جب تک سکوٹر گلی کا موڑ مڑ کر غائب نہیں ہو گیا۔
”اماں تو ابا سے کہہ… وہ سکوٹر لے لے…” سو نو نے یک دم اماں سے کہا۔ ”سکوٹر؟ … ” بختاور بری طرح چونکی۔ ”یہ سکوٹر کیسے یاد آ گیا تجھے؟” میرا دل کرتا ہے اماں … ابا کے پاس ایک سکوٹر ہو … جسے میں چلاؤں … ”
سو نو نے ٹافی کا ریپر اتار کر اسے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔”سکوٹر … ابا کا سکوٹر…” اماں بختے نے بڑبڑا نا شروع کر دیا تھا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!