Blog

ghar aur ghata new

”سلام اماں … کیاحال ہے تیرا؟” وہ دو گھر چھوڑ کر اس کی ہمسائی رشیدہ تھی جو چار پانچ سال کے ایک بچے کو ساتھ لیے اس کے پاس کھڑی اس کا حال پوچھ رہی تھی، اور اماں کے جواب دینے سے پہلے ہی اس نے دو روپے کا ایک سکّہ اماّں کی طرف بڑھا تے ہوئے کہا۔ ”یہ چنو کوچار ٹافیاں دینا۔ ” اماں نے سکے اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔ ”گھر بھی نِرا گھاٹا ہے۔” عورت نے جواباً کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنے بچے کے بالوں میں سے ایک تنکا ہٹا رہی تھی۔ اماں نے سکے ڈبے میں ڈال کر ٹافیوں کے ایک ڈبے سے چار ٹافیاں نکال کر بچے کے ہاتھ میں تھما دیں۔ بچے نے فوری طور پر ایک ٹافی کا ریپر کھول کر اسے منہ میں ڈال لیا۔ ”باپ سبزی کے پیسے دے گیا تھا اور اس نے ٹافی کے لئے ضد لگائی تھی۔ اب تھوڑی سبزی خریدوں گی تو رات کو روٹی کے ساتھ سالن کہاں بچے گا … پر مجال ہے چنو کو چین آ جائے … ” وہ عورت اماں سے چنو کی شکایت کر رہی تھی ساتھ پیار سے ا س کے بالوں پر ہاتھ بھی پھیر رہی تھی۔”لا ایک ٹافی ماں کو بھی دے۔ ” عورت نے بڑے لاڈ سے چنو سے کہا۔ چنو نے بے اختیار ٹافیوں والی مٹھی کمر کے پیچھے کی۔ ”میں نہیں دیتا … پھر دو رہ جائیں گی میرے پاس۔ ” چنو نے دو ٹوک انکار کیا۔ عورت فخریہ انداز میں کھلکھلا کر ہنسی۔ ”دیکھا اماں حساب میں کتنا تیز ہے … کیسے جھٹ پٹ جمع تفریق کر لیتا ہے۔” رشیدہ نے اماں سے کہتے ہوئے چنو کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر کی طرف چل دی۔


”سلام اماں …” وہ رضیہ کے پاس سلائی سیکھنے کے لئے آنے والی دو لڑکیاں تھیں۔ وہ بھی اماں کے جواب کا انتظار کئے بغیر دہلیز پار کر کے اندر چلی گئی تھیں۔
جس جگہ اماں کی چارپائی ہوتی تھی اب ایک دری تھی اور اس دری پر چند سلائی مشینیں اور کچھ کپڑے پڑے تھے رضیہ کے سلائی اسکول میں اس وقت دس لڑکیاں سلائی سیکھنے آتی تھیں اور یہ تعداد بڑھتی گھٹتی رہتی تھی۔ رضیہ نے وہ اسکول پانچ سال پہلے شروع کیا تھا … اور اس کے آغاز کے ساتھ ہی صحن میں اماں بختے کی چارپائی والی جگہ کی شدید ضرورت آن پڑی تھی … اور چونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اس لیے کئی سالوں سے اپنا پورا دن صحن کے اس کونے میں پڑی اس چارپائی پر گزرنے والی اماں بختے کو گھر کی دہلیز کے باہر یہ دکان کھولنی پڑی تھی۔ پہلے اماں کو رضیہ نے 20,25 چیزیں بیچنے کے لئے دی تھیں۔پھر بہت جلد اسے احساس ہو گیا کہ اس چھوٹی سی گلی میں اتنی بہت سی چیزوں کا کوئی خریدار نہیں تھا … اس گلی کے دونوں سروں پر بڑی گلیاں تھی اور ان گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں کے ساتھ چند جنرل سٹور بھی تھے… اماں بختے کے پاس اس گلی کا ہی کوئی خریدار آ سکتا تھا … اماں بختے کی دکان کے سامان کے لئے کہیں اور سے کوئی خریدار آنے والا نہیں تھا۔
چند مہینوں میں ہی بیچی جانے والی اشیاء کی ورائٹی کم ہونے لگی تھی۔ شروع میں اماں بختے روز دس پندرہ روپے کما ہی لیتی تھی۔ ان دس پندرہ روپے سے اس کے مہینے کے چھوٹے موٹے اخراجات پورے ہونے کے ساتھ کئی بار گھر کی سبزی اور آٹا بھی آ جاتے۔ عبدل کو ماں کو اب ہر مہینے کچھ نہیں دینا پڑتا تھا۔ دوسری طرف رضیہ اس لئے خوش تھی کہ وہ چارپائی والی جگہ کو استعما ل کر رہی تھی … سلائی سکول میں وہ دو اور لڑکیاں لے سکتی تھی کیونکہ گنجائش نکل آئی تھی۔
پھرآہستہ آہستہ اماں کا منافع کم ہونے لگا… پہلے منافع کم ہوا پھر ختم ہو گیا … کچھ عرصے تک دکان بغیر منافع کے چلتی رہی … پھر گھاٹا ہونے لگا تھا … دو روپے … چار روپے … اور اب یہ گھاٹا بڑھ کر کبھی کبھار 50 روپے تک بھی چلا جاتا تھا … عبدل کو ہر مہینے ایک بار پھر اماں بختے کی دکان میں پیسے ڈالنے پڑتے تھے … گھر میں جو ہنگامہ ہوتا وہ الگ … رضیہ ہر روز آسمان سر پر ضرور اٹھاتی لیکن وہ اماں کی دکان ختم کرنے پر تیار نہیں تھی۔ دکان ختم کرنے کا مطلب اماں کی گھر کے اندر چارپائی کے ساتھ واپسی تھی اور اس چارپائی کے دوبارہ بچھنے کی صورت میں اسے کم از کم دو لڑکیاں سکول سے کم کرنی پڑتیں۔ دو لڑکیاں کم کرنے کا مطلب ماہانہ دو تین ہزار روپے کا گھاٹا تھا … اماں کی دکان سے ماہانہ ہونے والا گھاٹا چھ سات سو تھا۔ دکان کے گھاٹے کے ساتھ بھی اماں کا گھر سے باہررہنا رضیہ کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں تھا۔
”اماں چائے لے لو۔” سونو ایک کپ پکڑے بڑے احتیاط سے دہلیز پار کرتا باہر آیا۔ ”ٹھہر میں پکڑتی ہوں۔ ” اماں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اس سے کپ پکڑا۔ سو نو اماں کے پاس دہلیز پر بیٹھ گیا۔ وہ نہا کر آیا تھا اور رضیہ نے تیل لگا کر اس کے بالوں کی مانگ نکالی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سرمہ لگایا تھا پھر سرمے سے ہی نظر کا ایک ٹیکا اس کے ماتھے پر بھی لگا دیا تھا۔
سونو بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا … چار بیٹیوں کے بعد … وہ عبدل اور رضیہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ یہ سلائی اسکول سونو اور بچیوں کو انگلش میڈیم اسکول میں پڑھانے کی خواہش کے لئے معرض وجود میں آیا تھا۔


”یہ والی ٹافی دو ناں اماں۔” سونو نے پاس بیٹھتے ہی ٹافیوں کے ڈبے میں جھانکتے ہوئے ایک ٹافی پر انگلی رکھی۔ ”ٹھہر بے صبرے میں خود دیتی ہوں تجھے۔ ” اماں نے پوپلے منہ کے ساتھ ہنس کر اس سے کہا۔ پھر چائے کا کپ رکھ کر اس نے ٹافی نکالی اور سونو کو تھما دی۔ ”نہا کر کتنا بیبا لگ رہا ہے میرا بچہ۔ ”
چائے کا کپ دوبارہ اٹھاتے اٹھاتے اماں کو سونو پر پیارآیا۔ سونو ٹافی کا ریپر کھولنے میں مصروف تھا اس نے اماں کی محبت پر غور نہیں کیا۔ اماں کپ اٹھا کر سڑک سڑک کر گرم چائے پینے لگی۔ بس رضیہ اس معاملے میں اچھی تھی۔ گھر میں چائے بنتی تو اماں کو بغیر پوچھے ایک کپ مل جاتا تھا۔ چائے کا وہ کپ اماں کو اگلے آدھے گھنٹے کے لئے مصروف رکھتا تھا۔
”سلام اماں۔” اماں کے پاس سے سلائی سکول کی دو اور بچیاں گزر رہی تھیں۔ پھر سونو بھی یک دم کھڑا ہو گیا۔ ”تو کہاں جا رہا ہے ؟” اماں نے چائے پیتے پیتے اسے ٹوکا۔ ”میں گھر جا رہا ہوں۔” دہلیز پر کھڑے ہو کر ٹافی چوستے ہوئے اس نے اعلان کیا اور گھر کی دہلیز عبور کر لی۔ اماں اس دہلیز کو دیکھتی رہی جسے چند لمحوں پہلے اس کے پیروں نے عبور کیا تھا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!