Blog

ghar aur ghata new

”سلام اماں بختے۔ ” وہ سترہ اٹھارہ سال کا ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اماں بختے نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”کیا لینا ہے ؟” اس نے سلام کا جواب دے کر کہا۔ ”کچھ نہیں … میں تو ملنے آیا ہوں … پہچانا نہیں تم نے مجھے ؟” اس لڑکے نے قدرے جوش کے عالم میں کہا۔ اماں نے عینک سیدھی کرتے ہوئے اس کو پہچاننے کی کوشش کی۔ دھندلاہٹ اتنی زیادہ تھی کہ اتنی دور کھڑے اس لڑکے کو وہ نہیں پہچان سکتی تھی۔ ”میں زاہد کا بیٹا ہوں اماں … وہ سامنے والے گھر میں رہتے تھے دس سال پہلے ہم لوگ۔” اس لڑکے نے تعارف کروایا اور اماں کو یک دم وہ یاد آ گیا۔ سات آٹھ سال کا ایک شرارتی بچہ جس نے پورے محلے کی جان عذاب میں کررکھی تھی پھر وہ لوگ محلہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اب وہ اسے آٹھ نو سال کے بعد دیکھ رہی تھی اس لڑکے کی ماں رضیہ کی بڑی پکی سہیلی تھی۔ ”ہاہ … روشن یہ تو ہے … تو تو جوان ہو گیا … ” اماں نے بے ساختہ کچھ حیران ہو کر کہا۔ ”اماں جوان ہوا ہوں بوڑھا نہیں ہوا … ” روشن نے اسی طرح چمک کر کہا تھا۔ ”پر اتنی جلدی بڑا کیسے ہو گیا تو ؟” اماں کی حیرت ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔ ”جس طرح ہر ایک کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں … ” روشن نے چہک کر کہا اور چل پڑا۔”سب کے بچے … ” اماں بڑبڑائی۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!