Blog

ghar aur ghata new

شریف کی گود میں بیٹھی عبدل کی ڈیڑھ سالہ بیٹی شریف کے منہ پر ہلکے ہلکے طمانچے مار رہی تھی۔ شریف سر جھکائے صحن کی چارپائی پر بیٹھا تھا۔ باورچی خانے میں سالن میں کفگیر چلاتی بختاور بے حد بے بسی سے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ عبدل پچھلے ایک گھنٹے سے صحن میں کھڑا باپ پر چلا رہا تھا۔
”سارے گھاٹے سارے عذاب میری جان کے لئے چھوڑ دیئے … وہ دونوں بڑے کویت میں بیٹھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ عیش کر رہے ہیں … انہیں ماں باپ کو خرچہ بھیجنے کی توفیق تک نہیں ہے … خرچے کو تو چھوڑ … غفار نے مکان پر گروی لی جانے والی رقم تک نہیں بھیجی … میں بچے پالوں یا ماں باپ پالوں … اب کون اتارے گا اس گھر کے قرضے … ابا میں بتا رہا ہوں تجھے … میں نے گروی کی رقم تبھی دینی ہے۔ جب یہ گھر تو میرے یا میری بیوی کے نام کرے گا … ہر گھاٹا تو نے میرے ہی گلے میں ڈالنا ہے … ” عبدل چلا رہا تھا۔ شریف نے ایک بار بھی سر نہیں اٹھایا۔ اس کی دکان اب عبدل چلا رہا تھا اور جوڑوں کے درد کی وجہ سے اس نے پچھلے سال سے دکان پر جانا بند کر دیا تھا …


”لے مکان تیرے یا میرے نام کیوں کریں گے … وہ تو دیں گے اپنے دونوں چہیتے بیٹوں کو … اور خدمت کر کے میں اور تو مر جائیں گے۔ ” رضیہ بھی اب اندر سے آ گئی تھی۔
”تو ٹھیک ہے ابا اس بار وہ گروی والے پیسے مانگنے آئیں گے تو میں کہہ دوں گا ان سے کہ مکان پر قبضہ کر لیں وہ۔” عبدل نے باپ کو دھمکایا۔ شریف نے سر اٹھایا۔ دور باورچی خانے میں آنسو بہاتی بختاور کو اس نے دیکھا پھر شکست خوردہ انداز میں عبدل سے کہا۔ ”تو کاغذ بنوا لے … تیرے نام کردیتا ہوں میں یہ گھر۔ ” رضیہ نے یک دم فاتحانہ انداز میں باورچی خانے میں دوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر روتی ساس کو دیکھا اور اندر چلی گئی۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!