Blog

ghar aur ghata new

”اماں تو سو رہی ہے کیا؟” وہ سونو کی آواز پر ہڑ بڑا کر سیدھی ہو ئی۔ وہ اس کے قریب جھکا مدھم آواز میں بڑے پراسرار انداز میں پوچھ رہا تھا۔ ”نہیں نہیں سو کہاں رہی ہوں … ایسے ہی آنکھ لگ گئی۔ ” اماں بختے نے فوراً صفائی دی۔ ”اماں نے کہا تھا کہ دیکھ آ کہیں تو سو تو نہیں رہی… کوئی چیز اٹھا کر لے گیا تو گھاٹا ہو گا۔ ” سونو نے اسی مدھم آواز میں کہا۔ وہ جیسے اپنی اور اماں کی گفتگو کو رضیہ تک پہنچنے سے بچانا چاہتا تھا۔ ”پتہ ہے مجھے … اب تو اماں سے مت کہنا … یہ دال سویاں لے لے۔” اماں نے فوراً ایک کاغذ پر کچھ دال سویاں رکھتے ہوئے اسے پکڑائیں۔ ”اور کھانا نہیں لایا تو۔ ” اماں کو سویاں پکڑاتے پکڑاتے یک دم یاد آ گیا۔
”وہ کھانا پکا نہیں … اماں نے ہانڈی رکھی ہے ابھی۔ ‘ ‘سونو نے بڑے مزے سے منہ میں چند دال سویاں ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ سویاں کھاتے کھاتے گھر کے اندر آ گیا۔


”کیوں سو رہی تھی نا بڑھیا؟” رضیہ نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ وہ قینچی سے کپڑا کاٹ رہی تھی۔ ”نہیں تو … وہ تو جاگ رہی تھی۔” سو نو نے اطمینان سے جھو ٹ بولا۔ ”سچ کہہ رہا ہے؟” رضیہ نے کچھ اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا۔
”اور کیا … یہ کھاؤ اماں۔” سونو نے ساتھ ہی چند سویاں رضیہ کے منہ میں ڈال دیں۔ رضیہ تو بیٹے کے اس لاڈ پر جیسے قربان ہو گئی تھی۔ ”میرا چاند … میرا لعل … آ میرا سونو … سو جا میری گود میں آ کے … تھک گیا ہو گا۔ ” رضیہ نے اسے زبردستی اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے کہا۔ ”میں نہیں تھکتا۔ ” سونو نے اطمینان سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”ہاں تو تو بڑا پہلوان ہے تو کیوں تھکے گا۔” رضیہ نے ہنستے ہوئے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ ”لیٹ جا اماں کی گود میں …” رضیہ نے زبردستی اسے لٹا کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ سو نو نے آنکھیں بند کر لیں چند لمحے وہ اسی طرح ساکت لیٹا رہا پھر یک دم اس نے آنکھیں کھول دیں۔”پر میں سو گیا تو اماں کو کھانا کون دے گا ؟ ” رضیہ نے اسے بے حد خفگی سے ایک چپت لگائی۔ ”دادی کا کتنا سگا بنتا ہے … سو جا چپ کر کے۔” رضیہ نے بے حد نا خوش ہو کر کہا۔ سونو کچھ نا خوش ہو کر کچھ دیر ماں کے پاس لیٹا رہا۔ پھر رضیہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور سونو چپکے سے اٹھ کر گھر سے باہرآگیا۔
”جا سونو کنگھی اور شیشہ لے کر آ۔” اماں بختے نے اسے دیکھتے ہی فرمائش کی۔ وہ روز دہلیزپر ہی بیٹھ کر اپنے سر پر موجود ان بالوں کو سنوارا کرتی تھی جو اب رسی سے بھی زیادہ پتلے ہو چکے تھے۔ سونو پلک جھپکتے میں اندرسے شیشہ اور کنگھا لے آیا، لیکن اس بار اس نے اس کام کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا تھا۔ اپنی گود میں کنگھا اور شیشہ رکھ کر اماں بختے آہستہ آہستہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ اپنے سفید بالوں کی وہ بے ترتیب سی چٹیا کھولنے لگی تھی جو اب آدھ فٹ سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی۔
بمشکل بال کھول کر اس نے آہستہ آہستہ بالوںمیں کنگھا چلانا شروع کر دیا تھا۔ سونو اس کے پاس بیٹھا بڑے شوق سے اسے بالوں میں کنگھا کرتے دیکھ رہا تھا۔ پھر اماں بختے نے سونو کو شیشہ تھماتے ہوئے کہا۔ ”لے سونو ذرا شیشہ پکڑ … میں چٹیا کر لوں۔ ” سونو نے خوشی خوشی شیشہ پکڑ لیا۔ اماں بختے نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ اس کے ہاتھ تھم گئے۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!