Blog

ghar aur ghata new

”اماں تو روٹی کیوں نہیں کھا رہی ؟” اسے گم صم بیٹھے دیکھ کر سو نو نے کہا۔ اماں جیسے ہڑ بڑا کر سیدھی ہوئی۔ سالن ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ سالن کے اوپر تیرتی چمکدار چکنائی اب ٹھنڈی ہو کر ایک تہہ سی بنا رہی تھی شوربے کے اوپر اماں نے ٹھنڈے سالن کے اندر روٹی کاایک اور ٹکڑا بھگونے کی کوشش کی۔ ”اور روٹی لا کر دوں ؟ ” سو نو نے اس سے پوچھا۔”ابھی پہلی کہاں کھائی ہے ؟ ” اماں نے نم آنکھوں کے ساتھ لقمہ حلق سے اتارنے کی جدوجہد کی۔ اسے بے اختیار کھانسی آئی۔


٭
”یہ کھانسی کیوں ہو رہی ہے تجھے ؟ ” حمیدہ نے کچھ تشویش کے ساتھ بختاور سے پوچھا۔ وہ بری طرح کھانس رہی تھی۔ ”پتہ نہیں ایک ہفتے سے ہو رہی ہے … پہلے کھانسی ہوتی ہے پھر سینے میں درد ہونے لگتا ہے۔” بختاور نے اپنی کھانسی رکنے پر کہا۔ ”کوئی دوا لی…؟” حمیدہ نے پوچھا۔ ”لو میں خواہ مخواہ دوا دارو پر پیسے ضائع کیوں کروں … انہیں پیسوں سے گھر کی کوئی اور چیز آ جائے گی۔ ” بختاور نے ہنس کر لا پرواہی سے کہا۔ ”پھر بھی۔” حمیدہ نے اصرار کیا۔ ”میں نے پہلے کبھی دوائیاں کھائی ہیں جواب کھاؤں گی خود بیمار ہوتی ہوں خو د ہی ٹھیک ہو جاتی ہوں … آ تجھے بچوں کا کمرہ دکھاؤں۔ ” بختاور کو بات کرتے کرتے اچانک خیال آیا۔ ”پورے محلے میں تیرے گھر جیسا کوئی گھر نہیں بختے … محلے کی عورتیں تو مثال دیتی ہیں تیری کہ بختے کے گھر تو روٹی زمین پر رکھ کر کھائی جاسکتی ہے … ایسی صفائی ہے تیرے گھر کی۔” حمیدہ نے اندر بچوں کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ بختاور کھانستے ہوئے دوپٹہ منہ پر رکھتے ہوئے فخریہ انداز میں مسکرائی تھی۔


٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!