Blog

ghar aur ghata new

”اماں ٹھیک سے بیٹھ جاؤ … اماں آ رہی ہے تجھ کو دیکھنے۔ ” سونو بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔ اماں بختے یک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ اس نے میز پر پڑی چیزوں کے ڈبوں کو بھی ٹھیک کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ خود کو مصروف ظاہر کر نا چاہتی تھی۔ سو نو دوبارہ غائب ہو چکا تھا۔


چند منٹوں کے بعد وہ ماں کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ رضیہ دبے قدموں آئی تھی لیکن اماں کو ہوشیار بیٹھا دیکھ کر وہ جیسے کچھ مایوس ہوئی۔ ”سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے یہاں؟” اماں نے سر اٹھا کر اس کا چہرہ دیکھا اور میکانکی انداز میں کہا۔ ”ہاں ” ”گاہکوں سے پیسے دو دفعہ گن کر لینے تھے۔ ” رضیہ نے کہا۔”دو دفعہ گن کر لیے ہیں۔ ” اماں نے پھر دہرایا۔ ”چیزیں احتیاط سے دینی تھیں … ” ”احتیاط سے دی ہیں۔”
”کسی کو ادھار نہیں دینا۔”
”کسی کو ادھار نہیں دیا۔ ” اماں جیسے کوئی سبق دہرا رہی تھی رضیہ کے پیچھے … ”کسی کو مفت کچھ نہیں دینا۔”
”کسی کو مفت کچھ نہیں دیا۔”
”خود بھی کچھ نہیں کھانا۔” ”خود بھی کچھ نہیں کھایا۔ ”
”آج گھاٹا نہیں ہونا چاہیے ” اماں نے اس بار سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر سو نو کو … پھر وہ بڑبڑائی۔ ”آج گھاٹا نہیں ہو گا۔”
”روز ہی کہتی ہے تویہ … یہ تو شام کو پتہ چلے گا جب میں حساب کروں گی … یہ سونو کو بسکٹ دے دے ایک پیکٹ۔ ” رضیہ نے تند و تیز آواز میں کہتے کہتے سونو کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اماں سے کہا۔ ”نہیں میں ٹافی لوں گا۔ ” سو نو نے فوراً کہا۔ ”چل ٹافی لے لے … اور ادھر ہی بیٹھ اماں کے پاس … دھیان رکھ کہ چیزیں ٹھیک سے بیچ رہی ہے۔” رضیہ کہتے ہوئے واپس اندر چلی گئی۔ سو نو نے اس بار ایک ٹافی خود اٹھا لی اور اماں کے پاس بیٹھ گیا۔ اماں نے رضیہ کے جانے پر جیسے سکون کا سانس لیا تھا۔
تبھی اماں کا ایک اور گاہک پہنچ گیا تھا۔ وہ محلے کے آخری گھر میں رہنے والی عورت زبیدہ تھی۔ کمر پر ایک سال ڈیڑھ سال کا بچہ اٹھائے اس نے اماں سے ایک بسکٹ کا پیکٹ لیا اور اسے کھول کر اپنے بیٹے کو تھما دیا۔ بچے نے چند لمحوں کے لئے منہ بسو راچند بار ٹانگیںچلائیں پھر بسکٹ کا پیکٹ تھام لیا۔ ”جبار اور غفار کا کوئی خط پتر … کوئی فون آیا … ؟ ” زبیدہ نے اپنا سر کھجاتے ہوئے اماں سے پوچھا۔ وہ گپ شپ کے موڈ میں تھی۔ ”نہیں پردیس میں وقت کہاں ملتا ہے۔ ” اماں بڑبڑائی تھی۔ ”آخری بار دس سال پہلے آئے تھے باپ کی وفات پر … ” زبیدہ نے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی۔ اماں بختے کی رنگت کچھ پھیکی پڑی اور اس نے سر ہلا دیا۔ ”آئے ہائے دس سال میں ایک بار بھی ماں کی یاد نہیں آئی۔ ” زبیدہ نے جیسے ہمدردی کی لیکن اماں بختے تڑپ گئی۔ ”یاد کیوں نہیں آتی ہو گی … یاد تو آتی ہو گی … کوئی ماں کو تھوڑی بھول جاتا ہے … جب بھی بیویوں کے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہوں گے تو میرے ہاتھ کا کھانا یاد آتا ہو گا انہیں … ان کی بیویاں میرے جیسا تھوڑا پکا سکتی ہیں۔ ” زبیدہ نے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اماں کی بات کی کسی دلچسپی کے بغیر تائید کی۔”ہاں یہ تو ہے۔ ” ”اور میری طرح کون کلف لگا کر کپڑے دیتا ہو گا انہیں … کھڑکھڑ کرتے کپڑے… ” اماں کچھ اور جذباتی ہوئی۔ ”پر اماں اب تو مشینوں میں کپڑے دھلتے ہیں اور باہر تو فرنگیوں جیسے کپڑے پہنتے ہیں سب لوگ … ان کو کہاں کلف لگانی پڑتی ہے۔ ” زبیدہ نے جیسے تصحیح کرنے کی کوشش کی۔”پر میری طرح کون سر میں تیل ڈال کر مالش کرتا ہو گا۔ ” اماں نے اصرار کیا۔ وہ اپنا کیس ہارنے پر تیار نہیں تھی۔ ”پر اماں تیرے بیٹوں کے سر پر تو اب چار بال ہوں گے … تیل کی ضرورت کہاں پڑتی ہو گی گنجے سر کو … وہ تو ویسے ہی چمکتا ہے۔ ” زبیدہ نے جیسے مذاق اڑایا۔ اماں بختے کو اس کی بات پر ہنسی نہیں آئی۔ ”اورکون میری طرح لوری دیتا ہوگا۔ ” زبیدہ نے اس بار کھل کر قہقہہ لگایا۔ ”لے اماں 50,50 سال کے ہو رہے ہیں تیرے بیٹے اب تیری لوریاں کہاں یاد کرتے ہوں گے۔ ” اس سے پہلے کہ اماں کچھ کہتی۔ زبیدہ کے بیٹے نے بسکٹ نیچے گرنے پر غصے میں آ کر زبیدہ کے منہ پر چانٹا مارا تھا۔ ایک لمحے کے لئے زبیدہ نے درد سے بے حال ہو کر گال پر ہاتھ رکھا۔ پھر ہنس پڑی… ”دیکھو ابھی سے کتنا غصہ آتا ہے اماں اسے … میں ذرا رضیہ سے سلام دعا کر لوں۔” وہ کہتے ہوئے دہلیز پار کر کے اندر چلی گئی۔ اماں بختے وہیں بیٹھی رہ گئی تھی۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!