Blog

ghar aur ghata new

تڑاک کی آواز کے ساتھ کپ اماں کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا اور دو ٹکڑے ہو گیا۔ اماں بختے بے اختیار جیسے چونک کر حال میں آئی تھی۔
تبھی سونو گھر سے نکل آیا۔ اس نے بے حد تشویش سے جھک کر اماں کے قدموں میں پڑے کپ کے ٹکڑے اٹھائے اور کہا۔”کپ ٹوٹ گیا اماں؟”


”ہاتھ سے چھوٹ گیا سونو۔” اماں نے فق چہرے کے ساتھ کہا۔ ”پر اماں نے تو کپ لینے بھیجا ہے مجھے … ” سونو اب پریشان ہو رہا تھا۔ ”یہ نمکو کا پیکٹ لے لے اور تو اماں سے کہہ دینا کہ تجھ سے ٹوٹ گیا ہے۔ ” اماں نے میز پر پڑا نمکو کا ایک پیکٹ اٹھا کر اسے تھماتے ہوئے بڑی لجاجت کے عالم میں کہا۔ ”اچھا میں کہہ دوں گا۔ ” سونو نے خوشی خوشی وہ پیکٹ لے لیااور کپ کے ٹکڑے ہاتھ میں لئے اندر چل دیا۔
صحن میں لڑکیوں کو سلائی سکھاتی رضیہ نے کپ کے ٹکڑوں کے ساتھ سونو کو اندر آتے دیکھا اور وہ وہیں بیٹھے بیٹھے چلائی۔ ”اس بڑھیا نے کپ توڑ دیا … ؟”
”نہیں اماں یہ تو میرے ہاتھ سے ٹوٹا ہے۔ ”سونو نے نمکو کا پیکٹ دانت سے کھولتے ہوئے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا۔ ٍرضیہ کا پارہ جتنی تیزی سے اوپر گیا تھا اس سے زیادہ تیزی سے نیچے آ یا۔ ”تو بھی بس … چل اس کوڑے کی ٹوکری میں پھینک اس کپ کو … ذرا سا بچہ ہے اب روز روز چائے ڈھوتا ہے تو کپ تو ٹوٹے گا ہی ا س سے … ” رضیہ نے پاس بیٹھی لڑکیوں سے کہا پھر ساتھ ہی دور بیٹھی ایک قمیص کاٹتی لڑکی کو ڈانٹا۔ ”یہ کیسے کاٹ رہی ہے تو … قمیص بنانی ہے یا رضائی بنانی ہے تو نے۔”
سونو کپ پھینک کر نمکو کھاتا رضیہ کی گود میں آ کر بیٹھ گیااور زبردستی اس کے منہ میں نمکو ڈالنے لگا۔ رضیہ نے نمکو کے چند دانے چباتے ہوئے بڑے پیار سے اکلوتے بیٹے کا منہ چوما۔ سونو نے جواباً اس کا منہ چوما۔
عبدل اسی وقت کام پر جانے کے لئے اندر سے نکلا۔ رضیہ کی گود میں بیٹھے سونو کو اٹھا کر اس نے اس کا منہ چوما پھر چلتے ہوئے دہلیز کے پاس اسے اتار کر وہ دہلیز پر بیٹھی اماں بختے کو سلام کیے بغیر تیز قدموں سے گھر سے باہر نکل گیا۔ اماں بختے نے خود اسے سلام کر کے دعا دی تھی۔ ”اللہ حافظ … خیر سے جا اور خیر سے آ۔” عبدل نے پیچھے پلٹ کر جواب دینے یا دیکھنے تک کی زحمت نہ کی تھی۔ اماں بختے تب تک عبدل کو دیکھتی رہی جب تک اس کا دھندلا وجود گلی کا موڑ نہ مڑ گیا۔
٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!